نظریۂ ارتقاء

عضویاتی ارتقاء (organic evolution) کا نظریہ اِسی قسم کاایک دجّالی نظریہ ہے۔ چارلس ڈارون (وفات: 1882) اور دوسرے علمائِ حیاتیات نے یہ دریافت کیا کہ مختلف انواعِ حیات کے جسمانی ڈھانچے میں بہت زیادہ مشابہتیں (similarities)پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بلّی اور شیر کے جسمانی ڈھانچے میں مشابہت، وغیرہ۔ اِن مشابہتوں سے انھوں نے یہ نظریہ وضع کیا کہ حیاتیات کی دنیا میں ایک ار تقائی عمل واقع ہوا ہے۔ اِس عمل کے دوران ایک قسم کی انواعِ حیات، عضویاتی ارتقاء کے نتیجے میں خود بخود دوسری قسم کی انواعِ حیات میں تبدیل ہوتی چلی گئیں۔

یہ بلا شبہ مغالطے کا ایک معاملہ تھا۔ انواعِ حیات کے درمیان مشابہتوں سے جو چیز ثابت ہوتی ہے، وہ صرف انواع میں تنوّع (variety) ہے، یعنی ہر نوع الگ الگ خصوصی تخلیق کے ذریعے وجود میں آئی۔ البتہ خالق نے انواع کی تخلیق کے لیے ایک دوسرے سے مشابہ جسمانی ڈھانچہ اختیار کیا۔ گویا کہ مشاہدہ صرف تنوع کو ثابت کررہا تھا، لیکن اس کی مغالطہ آمیز توجیہہ کرکے عضویاتی ارتقاء کا دعوی کردیا گیا۔

اِس نظریے میں بظاہر خدا کا انکار نہیں ہے، لیکن عملاً وہ خداکو زندگی سے بے دخل کردینے کے ہم معنیٰ ہے۔ نظریۂ ارتقاء کے مطابق، زندگی کا پورا عمل، طبیعی انتخاب (natural selection) کے ذریعے اپنے آپ ہورہا ہے۔ یہ نظریہ، خدا کو زندگی کے معاملے میں اتنا زیادہ بے اثر بنا دیتا ہے کہ خدا کو ماننا اور نہ ماننا دونوں یکساں ہو کر رہ جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کا عقیدہ عملی زندگی میں بالکل غیر موثر ہوکر رہ گیا ہے۔ اِس صورتِ حال کا سب سے بڑا سبب یہی نظریۂ ارتقاء ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom