آثارِ قیامت کی روایات کو تمثیل پر محمول کرنے کاسبب

اِس بحث کا ایک فیصلہ کن پہلو یہ ہے کہ قربِ قیامت کے بارے میں قرآن میں واضح بیانات موجود ہیں۔ مثلاً فرمایا کہ قیامت بالکل اچانک واقع ہوگی (الأعراف:187)۔ اِسی طرح قرآن کی ایک اور آیت میں ہے کہ: ’’بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اُس کو مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے‘‘۔ (طٰہٰ: 15) اِس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر نے عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول نقل کیا ہے: کتمتُہا من الخلائق، حتی لو استطعتُ أن أکتمہا من نفسی لفعلتُ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے قیامت کو تمام مخلوق سے مخفی رکھاہے، حتی کہ اگر اپنے آپ سے اس کومخفی رکھناممکن ہوتا تو میں خود اپنے آپ سے اس کو مخفی رکھتا۔

علمائِ اصول کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن سے متعارض نظر آئے تو قرآن کو اصل قرار دیا جائے گا اور حدیث کی تاویل کی جائے گی۔ ایسی حالت میں خالص علمی اعتبار سے، تاویل کی صرف ایک بنیاد ہے، اور وہ یہ کہ اس معاملے میں قرآن کے بیان کو اصل قرار دیا جائے اور حدیث کے بیان کو تمثیل پر محمول کیا جائے۔ اِس تعارض کو ختم کرنے کی دوسری کوئی اور صورت نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom