مذہب کا پولٹکل انٹرپریٹیشن
موجودہ دور میں جب پرنٹنگ پریس کا زمانہ آیا، تو کچھ لوگوں نے ایسی کتابیں لکھ کر دنیا میں پھیلانا شروع کردیں جن میں مذہب (اسلام) کا پولٹکل انٹر پریٹیشن (political interpretation) دیاگیا تھا۔ مخصوص اسباب کی بنا پر یہ کتابیں لوگوں کے درمیان کثرت سے پھیلنے لگیں۔ اِس لٹریچر سے متاثر ہونے والے لوگوں کا نشانہ، منحرفانہ طورپر، سیاسی انقلاب بن گیا۔مذہب کی یہ سیاسی تعبیر ایک خطرناک مغالطہ پر قائم تھی۔ وہ مغالطہ یہ کہ مذہب ایک مکمل نظام کا نام ہے۔ مذہب کا مقصد صرف پوجا اور پرستش نہیں ہے، بلکہ اِسی کے ساتھ لازمی طورپر یہ بھی ضروری ہے کہ مذہب کے دیوانی اور فوج داری قوانین کو زمین پر عملاً نافذ کیا جائے۔ چوں کہ قوانین کا نفاذ، حکومت پر قبضہ کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، اِس لیے اِن تحریکوں کا نشانہ فوراً یہ بن گیا کہ حکم راں طبقے سے لڑ کر وہ اُن سے اقتدار کو چھینیں، تاکہ سیاسی قوانین کا نفاذ ممکن ہوسکے۔
یہ مذہبی سیاست عملاً ایک عظیم نقصان کا سبب بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دعوت کا کام اعلیٰ سائنسی دلائل کی بنیاد پر جدید کمیونکیشن کے ذریعے انجام دیا جائے اور ساری دنیا میں خدا کا پیغام زیادہ موثر انداز میں تمام لوگوں تک پہنچا دیا جائے، مگر یہ عظیم امکان واقعہ نہ بن سکا۔ کیوں کہ جنھیں یہ دعوتی کام کرنا تھا، وہ سیاسی ہنگامہ آرائیوں میں مشغول ہوگئے— موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے اندر منفی سوچ، تشدد، انتہا پسندی، اور دوسروں کے بارے میں غیر ہم دردانہ ذہن، سب کے سب اِسی پولٹکل انٹرپریٹیشن کا نتیجہ ہیں۔یہی پولٹکل انٹرپریٹیشن ہے جس نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر نفرت کلچر کو جنم دیا ہے۔