مسیحی رول کی آمد

حقیقت یہ ہے کہ مسیح کی آمد سے مراد مسیح کے رول کی آمد ہے، یعنی دورِ آخر میں جب کہ دجّال ظاہر ہوگا، اُس وقت امتِ محمدی کا کوئی شخص اٹھے گا اور مسیح جیسا رول ادا کرتے ہوئے دجّال کے فتنوں کا مقابلہ کرے گا اور اُس کو شکست دے گا۔ حدیث میں قتلِ دجال کا ذکر ہے۔ اِس سے مراد دجال کا جسمانی قتل نہیں ہے، بلکہ دجال کے فتنے کو بذریعہ دلائل قتل کرنا ہے۔

یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ علمائِ اسلام کی قابلِ لحاظ تعداد اِس نقطۂ نظر کو ہمیشہ سے مانتی رہی ہے کہ مسیح جسمانی طورپر آسمان سے نازل نہیں ہوں گے۔ اِس نقطۂ نظر کی تائید میں مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ جو علمائِ اسلام اِس نقطۂ نظر کے حامی ہیں، اُ ن میں سے بعض کے نام یہ ہیں— امام فخرالدین الرازی (وفات: 1210)، سید جمال الدین افغانی (وفات: 1897)، مفتی محمد عبدہ (وفات: 1905)، سید رشید رضا مصری (وفات: 1935)، شیخ محمود شلتوت(وفات:1963)، ڈاکٹر محمداقبال(وفات: 1938)، مولانا عبید اللہ سندھی (وفات:1944)، مولانا ابو الکلام آزاد(وفات: 1958)، شیخ محمد بن احمد ابوزہرہ (وفات: 1974)، شیخ محمد الغزالی (وفات: 1996)وغیرہ۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ماہ نامہ الرسالہ، جولائی 2008، مضمون ’’قربِ قیامت کا مسئلہ‘‘) علمائِ متقدمین میں علی بن احمدبن حزم الاندلسی (وفات: 1063 ء) اور شیخ تقی الدین احمد ابن تیمیہ (وفات: 1328 ء) نے نزولِ مسیح کے مسئلے کو اختلافی مسئلہ قرار دیا ہے۔

اِس طرح یہ ظاہر ہے کہ روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسیح کوئی ایسی شخصیت ہیں جو آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور جب مسیح آسمان سے اترنے والی کوئی شخصیت نہ ہوں، تو ہمارے لیے صرف یہ انتخاب (option) باقی رہتا ہے کہ مسیح کو سادہ طور پر رول (role) کے معنی میں لیں، یعنی آخری زمانے میں امتِ محمدی سے کوئی ایک فرد اٹھے گا جو زمانی حالات کے اعتبار سے مسیح کا رول ادا کرے گا۔

مسیحی رول معروف معنوں میں کوئی فضیلت کی بات نہیں اور نہ وہ کوئی پراسرار چیز ہے۔ مسیحی رول دراصل ایک تاریخی رول ہے جو کسی امت کے دورِ آخر میں مطلوب ہوتا ہے۔ امت موسی کے دورِ آخر میں یہ رول مسیح ابن مریم نے انجام دیا تھا۔ امت ِ محمد کے دورِ آخر میں یہ رول خود امت کا کوئی مجدد انجام دے گا۔ امت محمد کے دور آخر کا رول آسمان سے اترنے والی کسی شخصیت کے ذریعہ انجام نہیں پائے گا۔ وہ خود امت کے اندر پیدا ہونے والے ایک شخص کے ذریعہ فطری طورپر انجام دیا جائے گا۔

اصل یہ ہے کہ ہر امت اپنے ابتدائی د ور میں اخلاص پر قائم ہوتی ہے۔ مگر بعد کے دور میں امت کے افراد کے اندر زوال آجاتا ہے۔ اب امت کے افراد میں منافقت عام ہوجاتی ہے۔ مسیحی رول حقیقت میں یہی ہے کہ دور زوال میں منافقت کواکسپوز (expose)کیا جائے اور اخلاص والے دین سے دوبارہ لوگوں کو متعارف کیا جائے۔

منافقت کیا ہے۔ منافقت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر دین کی حقیقی روح باقی نہ رہے۔ کچھ ظاہری چیزوں کو دین داری کا معیار سمجھ لیا جائے۔ اسی کو حضرت مسیح نے تمثیل کی زبان میں اِس طرح بیان کیا تھا کہ لوگ اندر سے بھیڑیا ہوں اور انھوں نے اوپر سے بھیڑ کی کھال پہن لی ہو (متّی: 7:15)۔

حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، امت محمدی میں منافقت کا یہ دور پوری طرح آچکا ہے۔ اب عام طورپر یہ حال ہے کہ ظاہری وضع قطع کو دین دار ی سمجھ لیا گیاہے۔ لوگوں کو قومی فخر کی غذا دینا عین اسلامی کام سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگوں کی کنڈیشننگ کو توڑے بغیر ایمان اور اسلام کے شان دار مظاہرے کئے جارہے ہیں اور ایسے لوگ مسلمانوں کے اندر قومی ہیرو بن گئے ہیں۔ کمیونٹی ورک کو دعوہ ورک کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ سیاسی اکھیڑ پچھاڑ کرنے والے لوگ مجاہدین ِ اسلام کا درجہ پارہے ہیں۔ اسلام کے بھیس میں منافقت کا یہ دور آج امت کے اندر پوری طرح آچکا ہے۔ آج مسیحی رول یہی ہے کہ اس منافقت کو اکسپوز کرکے اصلی اسلام کو لوگوں کے سامنے مبرہن حالت میں پیش کردیا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom