دابہ کا ظہور
قرآن کی سورہ نمبر 27 میں قیامت کے قریب پیش آنے والی ایک نشانی کا ذکر ہے جس کو دابّۃ کہاگیا ہے: ولمّا وقع القول علیہم أخرجنا لہم دابّۃً من الأرض تکلمّہم أن الناس کانوا باٰیاتنا لایوقنون (النمل: 82) یعنی جب اُن پر قول پورا ہوجائے گا تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک دابہ نکالیں گے۔ وہ اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
دابہ کے لفظی معنی ہیں— رینگنے والا (creeper)۔ یہ لفظ قرآن میں حیوان اور انسان دونوں کے لیے آیا ہے (فاطر: 45) آیتِ دابہ میں یہ لفظ زندہ مخلوق (creature) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اِس زندہ مخلوق سے مراد غالباً ایک انسان ہے، نہ کہ کوئی جانور۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک انسان کو اٹھائے گا، جو خدا کی اُن نشانیوں سے لوگوں کو باخبر کرے گا جو اگرچہ موجود تھیں، لیکن لوگ اُن کو خدا کے حوالے سے سمجھنے سے قاصر ہورہے تھے۔
دابہ کے سلسلے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ اِن روایتوں سے بظاہر یہ متصور ہوتا ہے کہ دابہ ایک انوکھی مخلوق ہوگا۔ اِن روایتوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن کو تمثیلی اسلوب قرار دے کر سمجھا جائے۔ چناں چہ مفسرین کی ایک جماعت نے ان روایتوں کو تمثیل پر محمول کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ دابہ سے مراد انسان ہے، نہ کہ کوئی عجیب الخلقت جانور۔ اس کے مطابق، دابہ عام انسانوں جیسا ایک انسان ہوگا اور وہ خدا کی خصوصی توفیق کے ذریعے خدا کی نشانیوں کے اظہار کا ذریعہ بنے گا۔ مفسرالقرطبی (وفات: 671 ھ) نے اِس رائے کو اِن الفاظ میں نقل کیا ہے: إنّ الأقرب أن تکون ہذہ الدابۃ إنساناً متکلماً، یناظر أہلَ البِدع والکفر ویجادلہم لینقطعوا، فیہلک من ہلک عن بیّنۃ، ویحیا من حیّ عن بیّنۃ(تفسیر القرطبی، جلد 13، صفحہ 236) یعنی بعض متاخرمفسرین نے کہا ہے کہ قریب تر بات یہ ہے کہ یہ دابہ ایک بولنے والا انسان ہو۔ وہ اہلِ بدعت اور اہلِ کفر سے مباحثہ کرے گا، تاکہ وہ باز آجائیں۔ چناں چہ جس کو ہلاک ہونا ہے، وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو۔ اور جس کو زندہ رہنا ہے، وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔
قرآن کی اِس آیت میں جب دابہ سے مراد دورِ آخر میں ظاہر ہونے والا انسان ہے، پھر کیوں ایسا ہوا کہ یہاں انسان کے بجائے دابہ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اِس کا سبب قانونِ التباس ہے، جس کا بیان قرآن کی سورہ الانعام کی آیت نمبر 9 میں کیاگیا ہے۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چہ اپنی وحی کو فرشتہ کے ذریعہ بھیجتا ہے، لیکن دوسروں کے سامنے اِس وحی کا اعلان ایک آدمی کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔ ایسا اِس لیے کیا جاتا ہے، تاکہ سنتِ الٰہی کے مطابق، شبہہ کا عنصر (element of doubt) باقی رہے۔ وحی لانے والا فرشتہ اگر خود ہی ظاہر ہو کر لوگوں کو آیتیں سناتا تو شبہہ کا عنصر ختم ہوجاتا۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک بشر کو اپنی وحی کے اعلان کا ذریعہ بنایا۔ غالباً یہی وہ حکمت ہے جس کی بنا پر قرآن میں دابہ کا لفظ استعمال کیا گیاہے، تاکہ شبہہ کا عنصر باقی رہے۔اگر یہاں انسان کا لفظ استعمال کیا جاتا تو قانونِ التباس کی حکمت باقی نہ رہتی۔
’’دابہ‘‘ کارول جو قرآن میں بتایا گیاہے، وہ یہ ہے کہ دابہ ظاہر ہو کر خدا کی مخفی نشانیوں کو آشکارا کرے گا اور دلیل کی زبان میں لوگوں سے کہے گا کہ جب یہ کھلی ہوئی نشانیاں موجود ہیں تو کس چیز نے تم کو روکا ہے کہ تم اِن نشانیوں پر یقین نہ کرو۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں جن نشانیوں (آیات) کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، اُن سے مراد غالباً وہ نشانیاں ہیں جو آخری زمانے میں ظاہر ہو کر دینِ خداوندی کی حقانیت کو آخری حد تک مبرہن کردیں گی۔ اِس طرح گویا دابہ یا دورِ آخر میں ظاہر ہونے والا داعی، اللہ کی طرف سے لوگوں کے اوپر آخری اتمامِ حجت ہوگا۔ اِس اتمامِ حجت کے بعد دوسرا واقعہ صرف یہ ہوگا کہ فرشتہ اسرافیل اپنا صور پھونک دے اور قیامت برپاہوجائے۔