نئے پیغمبر کی ضرورت
اِسی طرح، مذہب میں اِس معاملے کی ایک مثال اُن لوگوں کا دعویٰ ہے جنھوں نے یہ کہا کہ بیسویں صدی عیسوی میں حالات بدل گئے ہیں، اِس لیے اب ہمیں ایک نئے پیغمبر کی ضرورت ہے۔ یہ نظریہ پیش کرکے انھوں نے نئی پیغمبری کا دعویٰ کردیا۔ یہ پورا معاملہ مغالطہ آمیزی کا معاملہ ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ حالات کے بدلنے سے کبھی کوئی نیا پیغمبر نہیں آتا۔ حالات میں تبدیلی صرف اجتہاد کی ضرورت کو ثابت کرتی ہے، نہ کہ نئے پیغمبر کی ضرورت کو۔ کوئی پیغمبر جب آتا ہے تو وہ ہمیشہ دو میں سے ایک سبب کی بنا پر آتا ہے— یا تو یہ کہ وہاں کوئی پیغمبر سرے سے نہ آیا ہو، اِس لیے نبوت کے فقدان کی بناپر وہاں کوئی نبی بھیجا جائے۔ یا یہ کہ پچھلے نبی کی تعلیمات میں تحریف ہوگئی ہو، اِس بنا پر خدائی مذہب کا مستند ماخذ موجود نہ رہے۔
موجودہ زمانے میں دونوں میں سے کوئی ضرورت پائی نہیں جاتی۔ اب نبی آخرالزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلبکی صورت میں ایک ایسا پیغمبر آچکا ہے، جو یکساں حیثیت سے تمام دنیا کے لیے ابدی طورپر خدا کا پیغمبر ہے۔ دوسرے یہ کہ اس پیغمبر کی تعلیمات مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ اِس لیے اب نبوت کی مذکورہ دونوں ضرورتوں میں سے کوئی بھی ضرورت یہاں موجود نہیں۔
حالات کی تبدیلی بطور واقعہ درست ہے، مگر اس کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو مجتہدانہ کوشش کے ذریعے ازسر نو لوگوں کے سامنے اِس طرح لایا جائے کہ وہ جدید ذہن کے لیے پوری طرح قابلِ فہم بن سکیں۔ لوگوں کو نظرآئے کہ آپ کی تعلیمات آج کی دنیا کے لیے بھی اتنا ہی متعلق (relevant)ہیں، جتنا کہ وہ اِس سے پہلے تھیں— حالات کی تبدیلی نئے اجتہاد کی ضرورت کو ثابت کرتی ہے، نہ کہ نئے پیغمبر کی ضرورت کو۔