تربيت گاه
ایک حدیث رسول کا ترجمہ یہ ہے: تم ميں سے بهتر وه هے جو اپنے گھر والوں كے ليے بهتر هو (ابن ماجہ، حدیث نمبر 1977)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمي اپنے گھر كے لوگوں سے معامله كرنے ميں بهتر هوگا ،وه باهر والوں سے معامله كرنے ميں بھي بهتر ثابت هوگا۔ گھر هر آدمي كي فطري تربيت گاه هے۔ گھر كے اندر محدود سطح پر وه سارے معاملات پيش آتےهيں جو باهر سماج كے اندر زياده وسيع طور پر پيش آتے هيں۔ اس ليےجو آدمي محدود دائره ميں بهتر انسانيت كا ثبوت دے گا، وه باهر كے وسيع تر دائره ميں بھي بهتر انسانيت كا ثبوت دے گا، وه باهر كے وسيع تر دائره ميں بھي بهتر انسانيت والا بن كر ره سكے گا۔ايك صاحب گورنمنٹ سروس ميں تھے۔ ان كا نظريه تھا كه بيوي كو دبا كر ركھنا چاهيے۔ گھر كے اندر وه روزانه اپنے اسي نظريه پر عمل كرتے۔ وه هميشه گھر كي خاتون كے ساتھ سخت انداز ميں بولتے۔ وه ان كے ساتھ شدت والا سلوك كرتے تاكه وه ان كے مقابله ميں دب كر رهيں۔
گھر كي تربيت گاه ميں ان كاجو مزاج بنا، اسي كو لے كر وه دفتر ميں پهنچے۔ يهاں ان كي افسر (باس) اتفاق سے ايك خاتون تھيں۔ شعوري يا غير شعوري طورپر يهاں بھي ان كا وهي گھر والا مزاج قائم رها۔ وه اپني افسر خاتون كے ساتھ بھي اسي قسم كا ’’مرادنه‘‘ معامله كرنے لگے ،جس كے عادي وه اپنے گھر كي خاتون كے ساتھ هوچكے تھے۔ليڈي افسر ابتداء ً ان كے ساتھ ٹھيك تھي۔ مگر ان كے غير معتدل انداز نے ليڈي افسر كو بھي ان سے برهم كرديا۔ اس نے بگڑ كر ان كا ريكارڈ خراب كرديا۔ ان كا پروموشن رك گيا۔ وه طرح طرح كي دفتري مشكلات ميں پھنس گئے۔صحيح اصول وه هےجو گھر كے اندر اور گھر كے باهر دونوں جگه يكساں طورپر مفيد هو۔ يه اصول شرافت كا اصول هے۔ آدمي كو چاهيے كه وه گھر كے اندر شرافت كے ساتھ رهے۔ وه بڑوں كو عزت دے اور چھوٹوں كے ساتھ مهرباني كا سلوك كرے۔ يه اصول گھر كے اندر بھي كامياب هے اور گھر كے باهر بھي۔ يه آدمي كي اپني ضرورت هے كه وه گھر كے اندر اعتدال كے ساتھ رهے، اور گھر کے باہر بھی۔