خدا کا اعتراف نہیں

آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اوراس کے بعد وہ ایک کار خرید کر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہوا ہوگا— باپ کی طرف سے تحفہ (Dad's Gift)۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو حقیقۃً خدا کی طرف سے ملی ہے، اس کو خداکی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے ساتھ بے اعترافی کا معاملہ کرناہے، اور خدا کے ساتھ بے اعترافی بلا شبہ خدا کی اِس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن کی سورہ النمل میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر سلیمان بن داؤد کو ایک مادّی نعمت ملی تو انھوں نے فوراً کہا:هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي (27:40) ۔یعنی یہ میرے رب کے فضل میں سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پیغمبر نے اس کو خدا کا عطیہ (God’s gift) قرار دیا۔ یہی صحیح ایمانی طریقہ ہے۔ صاحبِ ایمان وہ ہے جو ہر چیز کو خدا کی چیز سمجھے، جوہر ملی ہوئی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا کا اعتراف کرے۔

دنیا میںانسان کو جوچیزیں ملتی ہیں، وہ بہ ظاہر خود اپنی کوشش کے ذریعے ملتی ہیں، لیکن یہ صرف اس کا ظاہری پہلوہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری پردے کو پھاڑ ے، وہ اصل حقیقت کو دریافت کرتے ہوئے ہر ملی ہوئی چیز پر یہ کہہ دے کہ یہ میرے رب کا عطیہ ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے مجھ کو دیا گیا۔

اِسی اعتراف کا مذہبی نام شکر ہے۔ یہاں اُسی شخص کو جائز طورپر رہنے کا حق حاصل ہے جو شکر و اعتراف کی نفسیات کے ساتھ اِس دنیا میں رہے۔ شکر کی یہی نفسیات موجودہ دنیا میں کسی کو جائز طورپر جینے کا حق دیتی ہے۔ اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر ناشکری اور بے اعترافی کی نفسیات ہو، وہ خدا کی اِس دنیا میں مجرم اور درانداز (intruders) کی حیثیت رکھتے ہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom