پیمپرنگ کا نقصان
میرے والد فرید الدین خاں کا انتقال دسمبر 1929ءمیں ہوا۔ اُس وقت میری عمر تقریباً 6 سال تھی۔ میرے والد اپنے تمام بچوں میں مجھ کو سب سے زیادہ مانتے تھے۔ وہ میرے ساتھ لاڈپیار(pampering) کا معاملہ کرتے تھے۔ اِس بنا پر میں بہت شوخ ہوگیا تھا اور اکثر طفلانہ شرارتیں کیاکرتا تھا۔ شیخ محمد کامل میرے پھوپھا تھے۔ وہ اِس کو دیکھ کر غصہ ہوتے تھے۔ وہ میرے والد سے کہتے تھے کہ — تم اپنے بیٹے کو خراب کرڈالوگے۔
لیکن بچپن میں میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میری والدہ زیب النساء(وفات 1985ء) بتاتی تھیں کہ والد کی زندگی میں میں بہت بولتا تھا، لیکن جب والد کا انتقال ہوگیا تو اچانک میں بالکل بدل گیا۔ میری شوخیاں ختم ہوگئیں۔ اب میں خاموش رہنے لگا۔ یہ میری زندگی کا بہت بڑا واقعہ تھا۔ اگر میرے باپ زیادہ دن تک زندہ رہتے تو یقینی طورپر میں اُسی قسم کا ایک نوجوان بن جاتا جس کو لاڈ پیار سے بگڑا ہوا بچہ(spoilt and pampered child) کہاجاتا ہے۔ بعد کو میری زندگی میں جو حقیقت پسندی اور سنجیدگی آئی، وہ براہِ راست طورپر میری یتیمی کا نتیجہ تھی۔
ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ابتدائی طورپر وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن یہ مدت عارضی ہوتی ہے۔ اس کو اپنی بقیہ زندگی والدین کے ماحول سے باہر، دوسروں کے درمیان گزارنی پڑتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کا معاملہ کرتے ہیں۔
اِس لاڈ پیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ شعوری یا غیر شعوری طورپر سمجھ لیتا ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والا وہی ہے جو میرے ساتھ لاڈ پیار(pampering) کا معاملہ کرے۔ لیکن یہ بچہ جب اپنے گھر سے باہر آتا ہے تو دوسرے لوگوں سے اس کو والدین والا لاڈ پیار نہیں ملتا۔ اب وہ ساری دنیا سے بے زار ہوجاتا ہے۔ اِس صورتِ حال نے تمام عورتوں اور مردوں کو شکایت کی نفسیات میں مبتلا کردیا ہے، جب کہ صحیح یہ تھا کہ لوگوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے محبت کی نفسیات پیداہو۔