كاميابي كا طريقه

ايك صاحب سروس كرتےتھے۔ ايك عرصے تك سروس كرنے كے بعد اُن كو احساس هوا كه سروس كي آمدني بچوں كي ترقي كے ليے كافي نهيں۔اِس ليے انھوں نےسروس چھوڑ دي اور ايك بزنس شروع كرديا، تاكه وه زياده كمائيں اور بچوں كو زياده ترقي دلاسكيں، مگر عملاً يه هوا كه بزنس ميں اُن كو مطلوب كاميابي حاصل نهيں هوئي۔ چناں چه وه ٹينشن ميں مبتلا هو گئے۔ آخر كار، اُن كو كينسر هوگيا اور بچوں كے ليے زياده پيسه كمانے سے پهلے وه اس دنيا سے چلے گئے۔

اِس طرح كا واقعه مختلف صورتوں ميں اكثر لوگوں كے ساتھ پيش آتاهے، مگر وه هر ايك كے ليے تباه كن هے۔ ايسے لوگوں كے ليے صحيح طريقه يه هے كه وه حقيقت پسند (realist) بنيں۔ وه اپني زندگي كا منصوبه خود اپني استطاعت كي بنياد پر بنائيں، نه كه اپني اولاد كے بارے ميں اپني امنگوں(ambitions) كي بنياد پر۔ وه بچوں كے مستقبل كي تعمير كے معاملے كو خود بچوں پر چھوڑ ديں۔ وه ايسا هر گز نه كريں كه بچوں كي خاطر اپنے آپ كو تباه كرليں اور آخر كار خود بچوں كو بھي۔

بچوں كي ترقي كي سب سے بڑي ضمانت يه هے كه خود اُن كے اندر عمل كا جذبه پيدا هو، اُن كے اندر داخلي اسپرٹ جاگے، وه خود حالات كو سمجھيں اور حالات كے مطابق، اپني زندگي كي تعمير كريں۔ ترقي وه هے جو آدمي كو خود اپني محنت سے ملے۔ دوسروں كي طرف سے دي هوئي ترقي كوئي ترقي نهيں۔

اِس قسم كي خواهش ركھنے والے لوگ اكثر ناكام هوجاتے هيں۔ اِس كا سبب كيا هے۔ اِس كا سبب يه هے كه وه اپنے بچوں سے جذباتي تعلق كي بنا پر ايسي چيز كے خواهش مند بن جاتے هيں جو منصوبهٔ الٰہی كے مطابق، اُن كو ملنے والي نهيں۔ آدمي كو چاهيے كه اِس معاملے ميں وه اپنے جذبات كے تحت كوئي فيصله نه كرے، بلكه وه ايك حقيقت پسند انسان كي طرح حالات پر غور كرے اور فطرت كے قانون كي روشني ميں اپنے عمل كا نقشه بنائے۔ يهي مطلب هے اس اصول كا كه — اِس دنيا ميں كسي آدمي كو وهي ملتاهے جو الله نے اُس كے ليے مقدر كرديا هو، نه اُس سے زياده اور نه اُس سےكم۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom