باپ کا تحفہ
اگرکوئی باپ اپنے بچوں کو مادی چیزیں نہ دے سکے۔ مثلاً گھر اور مال جیسی چیزیں اس کے پاس دینے کے لیے نہ ہوں تو ایساباپ ہمیشہ اس احساس میں جیتا ہے کہ میں ایک نالائق باپ ثابت ہوا۔ میں اپنے بچوں کا باپ ہوتے ہوئے بھی ان کی دنیا تعمیر نہ کرسکا۔
اپنے بچوں کے لیے کسی باپ کا یہ احساس کوئی مثبت احساس نہیں۔ اس کے برعکس، صحیح احساس یہ ہے کہ جو باپ اپنے بچوں کے لیے دنیا کی چیزیں دے سکے، وہ اس بات کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اس کو دینے کے قابل بنایا۔ اللہ نے اس کو ہاتھ پاؤں دیا، کمانے کی صلاحیت دی۔ اس طرح وہ اس قابل بنا کہ اپنے بچوں کو دینے کی چیزیں دے سکے۔
لیکن جو باپ اپنے بچوں کو دنیا کی چیزیں نہ دے سکے، اس کے پاس بھی اپنے بچوں کو دینے کے لیے بہت بڑی چیز موجود ہوتی ہے، اور وہ دعا ہے۔ وہ اپنی دعاؤں میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ، میں اپنے بچوں کا باپ تھا، لیکن میں اپنے بچوں کو دینے کی چیز نه دے سكا، تو میرا اور میرے بچوں کا رب ہے۔ تو میرے بچوں کو وہ چیز دے دے ، جو میں ان کو نہ دے سکا، تو میرے بچوں کے لیے میری طرف سے وہ دعا قبول فرما، جس میں تونے انسان کو یہ تلقین کی ہے: رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (2:201)۔
اگر کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے یہ دعا کرسکے، تو اس نے اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دی۔ وہ چاہتا تھا کہ خود اپنے آپ کو اپنے بچوں کے لیے دے سکے، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعے اپنے بچوں کو اپنے رب کے حوالے کردے۔ گویا کہ اپنے آپ کو نہ دے کر خود اللہ رب العالمین کا ہاتھ بچوں کے سر پر دے دیا۔ وہ اپنی اولاد کو چھوٹی چیز دینا چاہتا تھا، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دے، یعنی اللہ رب العالمین کو۔