معکوس تربیت

ایک مسلم تاجر کا واقعہ ہے۔ ان کی بیٹی نے اُن سے اپنی کسی ضرورت کے لیے پیسہ مانگا۔ مذکورہ مسلم تاجر نے اپنی بیٹی سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ انھوں نے فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اُس وقت ان کی جیب میں جتنے نوٹ تھے، وہ سب نکال کر انھوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کہا کہ یہ لو، تم ہی لوگوں کے لیے تو کماتے ہیں۔

یہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں۔ یہی سارے والدین کا حال ہے۔ والدین خود تو محنت کرتے ہیں، وہ مشقت کی کمائی کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کے بارے میں ان کا ذہن یہ رہتاہے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ خود تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنی اولاد کو ہر قسم کی راحت اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کے ليے تیار رہتے ہیں، خواہ اُنھیں اس کی جو بھی قیمت دینی پڑے۔

والدین کا یہ مزاج ان کی اولاد کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ والدین کا یہ مزاج اولاد کی معکوس تربیت کے ہم معنیٰ ہے۔ ان کی اولاد کو آخر کار جس دنیا میں داخل ہونا ہے، وہ حقائق کی دنیا ہے۔ وہاں کا اصول یہ ہے کہ— جتنا کرو، اتنا پاؤ۔

لیکن والدین گھر کے اندر اپنی اولاد کے اندر جو مزاج پیدا کرتے ہیں، وہ اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ گھر کا ماحول كيے بغیر پانے کا ماحول ہوتا ہے، اور گھر کے باہر کا ماحول کرکے پانے کا ماحول۔اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کا ہر نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں دونوں، منفی ذہن کا شکار ہورہے ہیں۔ اُنھیں دنیا کے ہر شخص سے شکایت ہوتی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر ان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ میرے ماں اور باپ بہت اچھے تھے، بقیہ تمام لوگ نہایت برے ہیں۔

اِس صورتِ حال نے آج کی دنیا میں دو چیزوں کا خاتمہ کردیا ہے — محنت کے ساتھ اپنا کام کرنا، اور لوگوں کا خیر خواہ (well-wisher) بن کر اُن کے درمیان رہنا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom