پرچۂ امتحان
يوپي كے ايك مسلمان دهلي ميں آكر آباد هوئے۔ انھوں نےپراپرٹي كا بزنس كيا۔ انھوں نے اِس بزنس ميں كافي دولت كمائي۔ مگر اُن كے يهاں كوئي اولاد نهيں هوئي تھي۔ ايك بار ان كي ماں دهلي آئيں۔ انھوں نے ديكھا كه ان كا بيٹا دهلي ميں ايك بڑے گھر ميں رهتا هے۔ دنيا كي هر چيز اس كے پاس هے، مگر شادي كو كافي عرصه گزرنے كے باوجود اُن كے يهاں اولاد نهيں هوئي۔اُن كي ماں اِس بات پر كافي پريشان هوئيں۔ وه اكثر كهتي تھيں — هائے ميرے بيٹے كي دولت كون لے گا۔
اِس واقعے سے اندازه هوتا هے كه قرآن ميں اولاد كو فتنه كيوں كها گيا هے (64:15)۔ اس كا سبب يه هے كه لوگ اپنے بيٹے كو اپني ذات كي توسيع (extension) سمجھتے هيں۔ اُن كو يقين هوتا هے كه اُن كي كمائي ان كے بعد ضائع نهيں هوگي، بلكه اپنے بيٹے كي صورت ميں بالواسطه طورپر وه اُن كو حاصل رهے گي۔
اولاد كے بارے ميں اِسي تصور كي بنا پر لوگوں كے ليے اولاد ايك فتنه بن جاتي هے۔ اِس تصور كے تحت جو ذهن بنتا هے، اس كا سب سے بڑا نقصان يه هے كه آدمي موت كي سنگيني سے غافل هوجاتا هے۔ موت كے بعد كے احوال پر وه زياده سنجيدگي كے ساتھ نهيں سوچتا۔ شعوري يا غير شعوري طورپر وه موت اور موت كے بعد كي حقيقتوں كے معاملے سے بے خبر هوجاتا هے۔
اولاد كي اصل اهميت يه هے كه اُس كے ذريعے نسلِ انساني كا بقا وتسلسل جاري رهتا هے۔ جهاں تك دولت كي بات هے، وه باپ كے ليے بھي امتحان كا ايك پرچه هے، اور بيٹےكے ليے بھي امتحان كا ايك پرچه۔ دولت كو اگر اِس ذهن كے تحت ديكھا جائے تو دولت كبھي مسئله نه بنے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ كسي والدین كي طرف سے اپني اولاد كے ليے بهترين تحفه يه هے كه وه تعليم وتربيت كے ذريعے اس كو اچھا انسان بنائے۔(سنن الترمذي، حدیث نمبر 1952)