بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں
ایک سینئر مسلم تاجر سے ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کو خدا نے 95 سال کی عمر دی، یعنی تقریباً ایک صدی۔ اِس لمبی زندگی میں آپ نے کیا سیکھا اورکیا تجربہ کیا۔ اِس سوال کے بعد وہ دومنٹ چپ رہے۔ اس کے بعد انھوں نےنہایت سنجیدہ انداز میں کہا— کوئی تجربہ نہیں۔ بس پیداہوئے۔ بڑے ہوئے تو بزنس میں لگ گئے۔ شادی کی اور بچے پیدا کیے۔ بچوں کو سیٹل(settle) کیا۔ اب آخر عمر میں بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں، اور موت کا انتظار کررہے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہی ہر گھر کی کہانی ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی تمام محبتوں کا مرکز بناتے ہیں۔ بچوں کی زندگی سنوارنے کے لیے وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، مگر آخر میںہر ایک کا یہ حال ہوتا ہے کہ بچے غیر وفادار نکلتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی آزاد زندگی بنا لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ماں باپ کی خدمت ایک فرسودہ تصور بن چکا ہے۔ بچوں کی ترقی کو ماں باپ اِس حسرت کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں کہ جس پیڑ کو ہم نے محنت کرکے اگایا تھا، اُس پیڑ کا سایہ اُنھیں حاصل نہیں ہوا۔
حدیث میںآیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ بچے اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کریں گے، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کریں گے (بَرَّ صَدِيقَهُ، وَجَفَا أَبَاهُ) سنن الترمذی، حدیث نمبر 2210۔ یہ حدیثِ رسول، موجودہ زمانے پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ آج ساری دنیا میں عمومی طورپر ایسا ہی ہورہا ہے۔ اِس واقعے کا سب سے زیادہ بُرا حصہ اُن لوگوں کو مل رہا ہے جو ساری زندگی بچوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور آخر میں ان کے حصے میں غم کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ مزید یہ کہ ایسے ماں باپ اُس حدیث کا مصداق ہیں جس میںکہاگیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أَذْهَبَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966۔