شهنشاه اكبر كي والده
ملّا عبد النبي (وفات 991ھ) شهنشاه اكبر كے زمانه كے بڑے علماء ميں سے ايك تھے۔ ان كي بنوائي هوئي ايك مسجد اب بھي نئي دهلی ميں بهادر شاه ظفر مارگ كے كنارے موجود هے،جو مسجد عبد النبي كے نام سے مشهور هے۔ ملّا عبد النبي شهنشاه اكبر كے استاذ تھے۔ اس بنا پر وه اكبر كے دربار ميں بلا روك ٹوك آتے جاتے تھے۔
اكبر نے ملّا عبد النبي كو حكومت ميں صدر الصدور كے عهده پر فائز كيا تھا۔ اكبر سے خصوصي تعلق كي بنا پر ملا عبد النبي كو اس زمانه ميں نهايت عزت كا مقام حاصل هوا۔ ملّا عبد القادر بدايوني كا بيان هے كه منصب صدارت كو كسي سلطنت ميں وه اهميت حاصل نهيں هوئي، جو مُلّا عبد النبي كے زمانه ميں اُسے حاصل تھي:
در زمان هيچ بادشاهي ايں چنيں صدرے باستقلال نگشته...
اكبر كو مُلّا عبد النبي سے اتني عقيدت تھي كه وه اُن كے جوتے سيدھا كرتا تھا۔ ان كے مكان پر جاكر اُن سے حديث سنتا تھا۔ ملا عبد النبي كي صحبت سے اس كي مذهبيت يهاں تك پهنچ گئي تھي كه وه مسجد ميں خود اذان ديتا تھا اور ثواب كي خاطر بعض اوقات مسجد ميں جھاڑو بھي ديتا تھا۔
ايك بار ايسا هوا كه اس كي سالگره كي تقريب تھي۔ اكبر نے اپني مشهور پاليسي كے مطابق، اس دن جو كپڑا پهنا تھا، وه زعفراني رنگ (گيروے رنگ) كا كپڑا تھا۔ ملّا عبد النبي نے اس كو ديكھا تو وه اُس كو هندوانه رنگ سمجھ كر غصه هوگئے، اور بھرے دربار ميں اكبر كو اپنے عصا سے مار ديا۔ اكبر كو اس پرناگواري هوئي، مگر وه خاموشي سے اٹھ كر محل كے اندر چلا گيا۔ محل كے اندر اُس كي ماں مريم مكاني موجود تھيں۔ اُس نے اپني ماں سے كهاكه ملا عبد النبي نے آج بھرے دربار ميں مجھ كو مارا۔ اگر وه تنهائي ميں مجھ كو نصيحت كرتےتو اس ميں كوئي حرج نه تھا۔
اكبر كي ماں مريم مكاني ايك ذهين اور صاحب علم خاتون تھيں۔ اُنھوں نے اكبر كي بات سُن كر كها۔ بيٹے، دل پر ميل نه لانا، يه تمھارے لئے نجاتِ آخرت كا ذريعه هے۔ قيامت تك چرچا رهے گا كه ايك بے اختيار مُلّا نے بادشاه كے ساتھ يه حركت كي اور سعادت مند بادشاه نے اس پر صبر كرليا۔ (مأثر الامراء، جلد دوم، صفحه 560)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی ذہن سازی میں عورت کا کردار بے حد اہم ہے۔