ايك وراثت يه بھي هے

كريم بخش سيدھے سادے دين دار آدمي تھے۔ گاؤں كي معمولي آمدني پر گزر كرليتے۔ 65 سال كي عمر ميں وه چار بچے چھوڑ كر مرے ،تو ان كے ليے انھوں نے كوئي قابل ذكر جائداد نهيں چھوڑي تھي۔ ان كے انتقال كے بعد ان كے بڑے صاحب زادے رحيم بخش شهر چلے آئے تاكه اپنے ليے كمائي كي كوئي صورت كرسكيں۔ شهرميں انھوں نےمختصر سرمايه كےساتھ ايك كاروبار شروع كرديا۔

رحيم بخش كے والد نے ان كے ليے كوئي مادي وراثت نهيں چھوڑ ي تھي۔ مگر قناعت اور سادگي اوركسي سے لڑے بھڑے بغير اپنا كام كرنے كي وراثت چھوڑي تھي۔ يه وراثت رحيم بخش كے ليے بے حد مفيد ثابت هوئي۔ ان كي سادگي اور قناعت كا نتيجه يه هوا كه معمولي آمدني كے باوجود وه مسلسل ترقي كرنے لگے۔ ان كا لڑائي بھڑائي سے بچنے كا مزاج ان كے ليے مزيد معاون ثابت هوا۔ هر ايك ان سے خوش تھا۔ هر ايك سے ان كو تعاون مل رها تھا۔ ان كي ترقي كي رفتار اگر چه سست تھي، مگر وه ايك دن ركے بغير جاري رهي۔

رحيم بخش كا كاروبار اگرچه معمولي تھا ،مگر ان كي شرافت، ان كي بے غرضي اور اور ان كي ايمان داري نے ان كو اپنے ماحول ميں اتني عزت دے ركھي تھي ،جيسے كه وهكوئي بڑي حيثيت كے آدمي هوں۔ ان كے پاس سرمايه بهت كم تھا، مگر لين دين ميں صفائي اور وعده كا پكا هونے كا نتيجه يه هوا كه بازار ميں بڑےبڑے تھوك بيوپاري ان سے كهتے كه ’’مياں جي، جتنا چاهے مال لے جاؤ۔ پيسه كي پروا نه كرو۔ پيسے بعد كو آجائيں گے‘‘۔ بعض اوقات ايسا بھي هوا كه كسي سے جھگڑے كي نوبت آگئي۔ مگر انھوں نے خود هي اپنے كو چپ كر ليا۔وه شرير آدمي كے خلاف كوئي جوابي كارروائي نه كرتے بلكه خاموشي سے اپنے كاروبار ميں لگ جاتےاور اس كے حق ميں دعا كرتے رہتے۔ جب ان كے دل ميں شيطان كوئي بد معاملگي كا جذبه ڈالتا تو ان كے والد كا معصوم چهره ان كے سامنے آجاتا۔ ان كو ايسا محسوس هوتا كه اگر ميں نے كوئي غلط معامله كيا يا كسي سے جھگڑا فساد كيا تو ميرے باپ كي روح قبر ميں تڑپ اٹھے گي۔ يه خيال فوراً ان كے جذبات كو دبا ديتا۔ وه دوباره اسي تعميري راسته پر چل پڑتے جس ميں انھيں ان كے باپ نے چھوڑا تھا۔

ان كا كاروبار بڑھا تو ان كو مزيد معاون كي ضرورت هوئي۔ اب انھوں نےاپنے بھائيوں كوبلانا شروع كيا۔ يهاں تك كه چاروں بھائي شهر ميں منتقل هوگئے۔ دھيرے دھيرے ان كے كاروبار كے چار مستقل شعبے هوگئے۔ هر شعبه ايك ايك بھائي كے سپرد تھا۔ چاروں بھائي ايك ساتھ مل كررهتے، اور ساتھ كھاتے پيتے۔ مگر كاروباري اعتبار سے هر بھائي اپنے اپنے شعبه كو آزادانه طورپر انجام ديتا تھا۔

كچھ دنوں كے بعد رحيم بخش كو محسوس هوا كه بڑے بھائي هونے كي حيثيت سے چونكه وهي كاروبار كے مالك هيں اس لئے بقيه بھائي اپنے كام كو اس دل چسپي سے نهيں كرتے جيسا كه كوئي آدمي اس وقت كرتاهے جب  کہ وہ كام كو اپنا ذاتي كام سمجھتا هو۔ اب رحيم بخش كے ليے دو صورتوں ميں سے كسي ايك كو انتخاب كرنے كا سوال تھا يا تو كاروبار كو اپنے قبضه ميں لے كر بقيه تينوں بھائيوں كو اس سے الگ كرديں اور اس كے نتيجه ميں هميشه كے ليے بھائيوں كي دشمني خريديں۔ دوسرے يه كه معاملات كو اسي طرح چلنے ديں۔ يهاں تك كه بالآخر وهي هو جو عام طورپر مشترك كاروبار ميں هوتا هے۔ يعني باهمي شكايت اور اس كے بعد تلخ يادوں كے ساتھ كاروبار كي تقسيم۔

رحيم بخش نے چند دن سوچا اوراس كے بعد سب بھائيوں كو جمع كركے ساري بات صاف صاف ان كے سامنے ركھ دي۔ انھوں نےكها كه خدا كے فضل سے ابھي كوئي بات بگڑي نهيں هے۔ بهترين بات يه هے كه چاروں بھائي ايك ايك كاروبار كو لے اور هر ايك ذاتي طورپر اپنا كاروبار چلائے۔ اس طرح همارے والد كي روح كو سكون پهنچے گا، اور مجھے يقين هے كه اس ميں هر ايك كے ليے زياده بركت هوگي۔ تينوں بھائيوں نے كها كه هم تو سراپا آپ كے احسان مند هيں۔ اس ليے آپ جو بھي فيصله كرديں وه هم كو منظور هے۔ مختصرگفتگو كے بعد يه طے هوا كه قرعه اندازي كا طريقه اختياركيا جائے۔ چنانچه اسي وقت قرعه كے ذريعه هر بھائي كو ايك ايك كاروبار دے ديا گيا۔

اب چاروں بھائي اپنے اپنے كاروبار ميں لگے هوئے هيں۔ هر ايك اپنے بچوں كو لے كر اپنے اپنے كام ميں صبح سے شام تك محنت كرتاهے۔ چاروں كے درميان پهلے سے بھي زياده اچھے تعلقات هيں۔ هر ايك دوسرے كي مدد كرنے كے ليے هر وقت تيار رهتا هے۔ چاروں نے الگ الگ اپنے مكانات بنا ليے هيں۔ مگررحيم بخش اب بھي اسي طرح سب كے’’بڑے بھائي‘‘ هيں جيسے وه پهلے بڑے بھائي تھے۔ ايك بھائي جو بات كهه دے اس كو دوسرا بھائي كبھي نهيں ٹالتا۔ ايك گھر ميں كوئي ضرورت پيش آجائے تو چاروں گھروں كي عورتيں اور بچے مل كر اس كو اس طرح كرتے هيں جيسے وه هر ايك كا اپنا كام هو۔

اكثر باپ يه سمجھتے هيں كه اپني اولاد كے لئے سب سے بڑي وراثت يه هے كه وه ان كے لئے مال اور جائداد چھوڑ كر اس دنياسے جائيں۔ مگر حقيقت يه هے كه سب سے زياده خوش نصيب اولاد وه هے جس كے باپ نے اس كے ليے بااصول زندگي كي وراثت چھوڑي هو۔ وه اپني اولاد كو يه سبق دے كر دنيا سے گيا هو كه اپني محنت پر بھروسه كرو، لوگوں سے الجھے بغير اپنا كام كرو۔ اپنے واجبي حق پر قناعت كرو۔ حال كے فائدوں سے زياده مستقبل كے امكانات پر نظر ركھو۔ خوش خياليوں ميں گم هونے كے بجائے حقيقت پسندي كا طريقه اختيار كرو۔ مادي وراثت سے زياده بڑي چيز اخلاقي وراثت هے۔ مگر بهت كم باپ هيں جو اس حقيقت كو جانتےهوں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom