اہل وعیال کا فتنہ
حدیث کی کتابوں میںاہل وعیال کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن میں سے دو روایتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: الْوَيْلُ كُلُّ الْوَيْلِ لِمَنْ تَرَكَ عِيَالَهُ بِخَيْرٍ وَقَدِمَ عَلَى رَبِّهِ بِشَرٍّ(مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 314)۔ یعنی کامل تباہی وبربادی ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے عیال کو اچھی حالت میں چھوڑا، اور خود برے حال میں اپنے رب کے پاس پہنچا۔دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:يُؤْتَى بِرَجُل يَوْم الْقِيَامَة فَيُقَال أكل عِيَاله حَسَنَاته(تخريج الأحاديث في تفسير الكشاف للزيلعي، حدیث نمبر 1357)۔یعنی قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اورکہا جائے گا کہ اس کے اہل وعیال اس کی نیکیاں کھا گئے۔
قدیم زمانے میں صرف کچھ افراد اِس قسم کے ہوتے تھے، لیکن موجودہ زمانے میں اِس پہلو سے بگاڑ کا یہ حال ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے جیسے تمام لوگ اِس تباہ کن کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اِس کم زوری کا سبب حبّ ِعیال ہے۔ بظاہر لوگ خدا کا اور اسلام کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کی محبتیں صرف اپنے اہل وعیال سے ہوتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کاسب سے بڑا کنسرن اُن کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال و اسباب کو اپنے اہل وعیال کے لیے وقف کیے رہتے ہیں۔ موت ایسے لوگوں کے لیے ایک جبری انقطاع(compulsive detachment)کے طورپر آتی ہے۔ ایسے لوگ جب موت کے بعد خدا کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔یہ بلاشبہ سب سے بڑی محرومی ہے۔ حدیث کے مطابق،یہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو تباہ کرنا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966) ۔مزید یہ کہ یہ اہل وعیال جن کو آدمی اپنا سب کچھ دے دیتا ہے، وہ موت کے بعد اُس سے اِس طرح جدا ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ وہ اُس کو کبھی نہیں ملتے۔