کام کی تلاش
14 دسمبر2004ء کا واقعہ ہے۔ ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ اُنہوں نے اپنا نام محمد عیسیٰ بتایا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں1998ء سے بے کار ہوں، اور کام کی تلاش میں دلی آیا ہوں۔ اُنہوں نے اپنے کچھ حالات بتائے جس سے اندازہ ہوا کہ انہیں صحیح مشورہ دینے والا کوئی شخص نہیں ملا۔ اُن کے ماں باپ نے بھی غالباً لاڈ پیار کے سوا کوئی ایسی بات نہیں بتائی، جوان کی زندگی کی تعمیر کے لیے مفید ہو۔
میں نے کہا کہ میں آپ کو کوئی کام نہیں دے سکتا۔ البتہ میںآپ کو زندگی کی ایک حقیقت بتا سکتا ہوں ،جو دنیا میں کام پانے کے لیے ضروری ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ آپ بے کار ہیں۔ دنیا کو واحد دلچسپی یہ ہے کہ آپ کے اندر کوئی ایسی صلاحیت ہے، جو دنیا کے لیے کارآمد ہو۔ آپ کو اگر کام پانا ہے تو اپنے آپ کو کار آمد بنائیے۔ اس کے بعد کام خود آپ کو ڈھونڈھے گا، نہ کہ آپ کام کو ڈھونڈھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے بنانے والے نے اس کو انٹرسٹ کی بنیاد پر بنایا ہے۔ ہر آدمی کا اپنا ایک انٹرسٹ ہے، اور اپنے اس انٹرسٹ کے لیے وہ دوڑ رہا ہے۔ ایسی دنیا میں کامیابی کی صورت صرف ایک ہے، وہ یہ کہ آپ یہ ثابت کرسکیں کہ آپ دنیا کے انٹرسٹ کو پورا کرسکتے ہیں۔ دنیا کے کام آئیے، اور دنیا آپ کو کام دینے پر مجبور ہوجائے گی۔
کام کی تلاش کا ذہن آدمی کے اندر مایوسی پیدا کرتا ہے، اور اپنے آپ کو کار آمد بنانے کا ذہن آدمی کے اندر یقین اورحوصلہ پیدا کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں سے امید نہ رکھے۔ وہ اپنے کام کو خود اپنے اندر تلاش کرے۔ وہ اپنی صلاحیت کو دریافت کرے، اور اپنی اس صلاحیت کو ترقی دے کر اپنے آپ کو سماج کے لیے کارآمد بنائے۔ وہ اتنی تیاری کرے کہ وہ دوسروں کی ضرورت بن جائے۔ دنیا میں کامیابی کا راز یہی ہے۔