آخری بات
آپ كا ايك لڑكا هے۔ آپ اس كو كامياب ڈاكٹر ديكھنا چاهتے هيں۔ آپ كيا كريں گے۔ آپ اس كو اسكول ميں داخل كريں گے۔ بيالوجي كے ساتھ هائي اسكول كرائيں گے۔ پھر بي ايس سي كرائيں گے۔ پھر اس كو ايم بي بي ايس كے كورس ميں داخل كريں گے۔ پھر آپ كي كوشش يه هوگي كه اس كو ايف آر سي ايس كرنے كے ليے لندن بھيجيں۔ ان تمام مراحل سے گزرنے كے بعد هي آپ يه اميد كرسكتے هيں كه وه ايك ڈاكٹر كي حيثيت سے دنيا ميں اپني جگه بنائے۔
آپ ميں سے كوئي شخص ايسا نهيں كرے گا كه وه اپنے لڑكے كو يوں هي چھوڑ دے كه وه كھيلتا كودتا رهے۔ اس كے بعد جب وه 25 برس كا هوجائے تو اس كا باپ اس كو ڈاكٹر بنانے كے حق ميں پرجوش تقريريں شروع كردے، وه حكومت كو تار بھيجے كه ميرے لڑكے كو اسپتال ميں سرجن مقرر كرو۔ يا يه كه اس كو ’’پس مانده‘‘ قرار دے كر ڈگري كے بغير ڈاكٹر تسليم كرلو۔ آپ ميں سے هر شخص خوب جانتا هے كه ڈاكٹر بننے كے ليے ضروري هے كه اس كا لڑكا تعليمي اور تربيتي كورس كو پورا كرے۔ محض مطالبه كرنے سے كوئي شخص كبھي ڈاكٹر نهيں بن سكتا۔ يه دنيا استحقاق كي دنيا هے، مطالبات كي دنيا نهيں۔
یہ دنیا مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ دوسروں کی طرف سے آپ کو تلخ تجربات پیش آئیں گے ،اپنوں کی طرف سے بھی اور غیروں کی طرف سے بھی۔ وہ شخص نادان ہے جو تلخیوں کی یاد میں جئے۔ دانشمند وہ ہے جو تلخ یادوں کو بھلائے اور صبر و تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے مستقبل کی تعمیر میں وقت لگا دے۔
تعلیم کا مقصد صرف سروس حاصل کرنا نہیں ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو باشعور بنایا جائے۔ اس دنیا میں سارے مسائل کی جڑ بے شعوری ہے، اور سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ لوگ باشعور ہوں۔ وہ مسائل کی حقیقی نوعیت کو سمجھیں۔ وہ حالات کا بے لاگ تجزیہ کرسکیں۔ وہ اس بات کو جانیں کہ دنیا میں کیا چیز قابلِ حصول ہے، اور وہ کیا چیز ہے جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔
تعلیم آدمی کو بے شعوری سے نکالتی ہے اور اس کے اندر شعور کی صفت پیدا کرتی ہے۔ اس دنیا کی تمام کامیابیاں بلا شبہ تعلیم یافتہ انسان کے لیے مقدر ہیں۔ تعلیم کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔