كچھ چھوڑنا پڑتا هے
دهلي ميں ميں اجميري گيٹ كي سڑك سے گزر رها تھا۔ ايك خوانچه فروش عورت كي آواز ميرے كان ميں آئي:’’ايك هزار كي ساڑي پهنوں گي تو بچے نهيں پال سكتي هوں‘‘۔ اس كے ساتھ بيٹھنے والي خوانچه فروش نے اس كي معمولي ساڑي پر اعتراض كيا تھا۔ اس كے جواب ميں عورت نے كها كه خريدنے كے ليے ميں بھي اچھي ساڑي خريد سكتي هوں۔ مگر اس كي قيمت مجھے يه ديني پڑے گي كه اپنے بچوں كي پرورش اور تعليم ميں خرچ كرنے كے ليے اس كے بعد ميرے پاس كچھ نه رهے گا۔
يه زندگي كي ساده سي حقيقت هے۔ هر آدمي جانتا هے كه زياده اهم چيزوںميں اپنا بھر پور حصه ادا كرنے كے ليے اس كو كم اهم چيزوں ميں ’’صبر‘‘ كا اصول اختيار كرنا پڑتا هے۔ كچھ چيزوں ميں اسے ’’كم‘‘ پر راضي هونا پڑتا هے تاكه بعض دوسري چيزوں ميں وه ’’زياده‘‘ كا مالك بن سكے۔
اس اصول كا تعلق هر ايك سے هے، خواه وه غريب يا امير۔ غريب كو اس اصول پر چلنے كے ليے اگر اپني ضروريات ميں كمي كرني پڑتي هے تو امير سے اس كا يه تقاضا هوتا هے كه وه اپني عيش اور تفريح كي چيزوں ميں كمي كردے۔ اهم كي خاطر غير اهم كي قرباني هر ايك كو ديني هے۔ اس ميں ايك شخص يا دوسرے شخص كے درميان كوئي تفريق نهيں۔
مگر اس اصول كو لوگ صرف اپنے گھر اور اپنے بچوں كے بارے ميں جانتے هيں۔ خدا كے دين كے بارے ميں وه اس اهم اصول كو بالكل بھولے هوئے هيں۔ اس معامله ميں هر آدمي كا وهي حال هورها هے جو بائبل ميں ان لفظوں ميں بيان كياگيا هے — خداكا گھر ويران هے، كيونكه تم ميں سے هر ايك اپنے گھر كو دوڑا چلا جاتا هے(حجي، 1:10)
لوگ اپنے گھر كے امور كو كم اهم اور زياده اهم كي نظر سے ديكھتے هيں۔ جو كم اهم هے اس كو چھوڑكر جو زياده اهم هے اس كو اختيار كرليتے هيں۔ مگر دين وملت كے معامله ميں ان كےيهاں اهم اورغير اهم كي كوئي تقسيم نهيں۔ يهاں وه بس اپنے ذوق پر چلنا چاهتے هيں، خواه اس كا مطلب يهي كيوں نه هو كه آدمي اهم كو چھوڑ كر غير اهم دائره ميں دوڑنا شروع كردے۔