بچوں كي تربيت

ايك مغربي ملك ميں مقيم ايك مسلم خاندان نے اِس كا اظهار كيا كه وه يه چاهتے هيں كه اُن كے بچے كچھ دنوں كے ليے آكر همارے يهاں ٹھهريں اور هم سے اسلامي تربيت حاصل كريں۔ ميں نے اِس تجويز كو رد كرديا۔ ميرے نزديك يه تربيت كا ايك مصنوعي طريقه هے۔ اس دنيا ميں كوئي بھي نتيجه خيز كام صرف فطري طريقے كے مطابق انجام پاتا هے،غير فطري طر يقه كسي بھي كام كے ليے هرگز مفيد نهيں۔

اِس سلسلے ميں مجھے ايك واقعه ياد آتا هے۔ اپريل 1981ء ميں ايك انٹرنيشنل كانفرنس ميں شركت كے تحت ميں بار بيڈوز (Barbados)گيا تھا۔ اِس سلسلے ميں وهاں كے مقيم مسلمانوں نے ايك مسجد ميں ميرا پروگرام ركھا۔ ايك صاحب اپنے ايك بچے كو اپنے ساتھ لے كر وهاں آئے۔ يه بچه جو تقريباً 12 سال كا تھا، وه اصل اجتماع كے باهر ايك مقام پر اِس طرح بيٹھا كه اس كي پيٹھ ميري طرف تھي اور اس كا چهره دوسري طرف۔ ايك شخص نے اُس سے كها كه تم اِس طرح كيوں بيٹھے هو، اندر چل كر لوگوں كے ساتھ بيٹھو۔ لڑكے نے نهايت بے پروائي كے ساتھ جواب ديا — مي ناٹ (“me not”) يعني مجھے اِس سے كوئي مطلب نهيں هے۔يه واقعه موجوده زمانه كے تمام مسلم خاندانوں كے ليے ايك علامتي واقعے كي حيثيت ركھتا هے۔ آج كل كے لوگوں كا حال يه هے كه وه محنت كركے كماتے هيں اور پھر محبت كے نام پر اپني كمائي كا بڑا حصه بچوں پر خرچ كرتے هيں۔ مگر اپني حقيقت كے اعتبار سے يه محبت نهيں هے، بلكه وه لاڈپيار (pampering) هے، اور يه ايك واقعه هے كه بچوں كو بگاڑنے كا سب سے بڑا سبب يهي لاڈ پيار هے۔

كسي بچے كا ابتدائي تقريباً 10سال وه هے جس كو، نفسياتي اصطلاح ميں، تشكيلي دور (formative period) كهاجاتا هے۔ يه تشكيلي دوربے حد اهم هے، كيوں كه اِس تشكيلي دور ميں كسي كے اندر جو شخصيت بنتي هے، وه بے حد اهم هے۔ يهي شخصيت بعد كي پوري عمر ميں باقي رهتي هے۔ اِسي حقيقت كو ايك عربي مقولے ميں اِس طرح بيان كياگيا هے:من شب على شيء شاب عليه (آدمي جس چيز پر جوان هوتاهے، اُسي پر وه بوڑھا هوتا هے)۔

لوگوں كا حال يه هے كه وه تشكيلي دور(formative period) ميں نام نهاد محبت كے ذريعے بچوں كو بگاڑ ديتے هيں۔ دوسرے لفظوں ميں يه كه آج كل كے تمام والدين اپنے بچوں كو مي ناٹ بچے(me not children)بناديتے هيں۔ اس كے بعدوه چاهتے هيں كه ان كے بچے كسي كرشمه ساز تربيتي طريقے(charismatic method of training)  كے ذريعے اصلاح يافته بن جائيں۔

ميرے تجربے كے مطابق، اصل مسئله يه هے كه موجوده زمانے كے والدين اپنے بچوں كي تربيت كے معاملے ميں سنجيده نهيں۔ اِس معاملے ميں اگر كوئي باپ زياده سے زياده سوچ پاتا هے تو وه صرف يه كه وه اپنے بيٹے كو گول ٹوپي اور اپني بيٹي كو اسكارف پهنا دے، اور پھر خوش هو كه اُس نے اپني اولاد كو اسلامي تربيت سے مزيّن كرديا هے۔تربیت اولاد کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے، اس کو ایک واقعہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ستمبر 1993ء ميں انگلینڈ کے سفر کے دوران ميں  برمنگھم میں شمشاد صاحب کے گھر پر ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک بار میں اپنے کمرہ میں تھا تو دوسرے کمرے سے آواز آئی۔ مسز شمشاد اپنے صاحبزادے سے کہہ رہی تھیں:

’’جھوٹ بولنے سے کیا ملا، گناہ ملا نہ، لکھ گیا اوپر‘‘

برمنگھم کی ایک تقریر کے بعد ایک صاحب نے سوال کیا کہ مغربی ملکوں میں ہمارے بچے یہاں کے کلچر سے بہت تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس سے حفاظت کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میں نے مذکورہ واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہی ماحول ہر گھر  میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ بچہ کے دل میں بچپن سے یہ ڈال دیں کہ تمہارا قول و فعل اوپر لکھا جا رہا ہے تو وہ ساری زندگی کے لیے اس کا چیک  بن  جا ئے  گا ۔

 اگر كوئي شخص اپنے بچوں كي تربيت كے معاملے ميں سنجيده هو تو اس كے ليے ميں چند عملي مشورے يهاں درج كروں گا:

1۔ محبت كے نام پر لاڈ پيار (pampering) كو وه اِس طرح چھوڑ ديں جيسے وه كسي حرام كو چھوڑتے هيں۔ محبت كے نام پر جو لاڈ پيار كيا جاتا هے، اُس كا سب سے بڑا نقصان يه هے كه وه بچے كو زندگي كے حقائق (realities) سے بالكل بے خبر كرديتا هے۔ اِس كا نتيجه يه هوتاهے كه بچے كے اندر حقيقت پسندانه طرز فكر (realistic approach) كانشو ونما نهيں هوتا۔ مزيد يه كه اِس كے نتيجے ميں بچے كے اندر ايك خود پسند شخصيت (self-centered personality) تشكيل پاتي هے، جو كسي آدمي كے ليے كامياب زندگي كي تعمير ميں بلا شبه سب سے بڑي ركاوٹ هے۔

2۔  اِس سلسلے ميں يه بات بهت زياده قابلِ لحاظ هے كه بچے كي عمر كا ابتدائي تشكيلي دور ماں باپ كے ساتھ گزرتا هے۔ اِس دور ميں بچے كے اندر جو شخصيت بنتي هے، وه هميشه بدستور اس كے اندر باقي رهتي هے۔ والدين كو جاننا چاهيے كه اِس ابتدائي تشكيلي د ور ميں اگر انھوں نے بچے كي تربيت ميں غلطي كي تو بعد كے زمانے ميں اس كي تلافي كبھي نه هوسكے گي۔ بعد كے زمانے ميں ايسے كسي شخص كي اصلاح كي صرف ايك ممكن صورت هوتي هے، اور وه يه كه اس كو شديد نوعيت كا كوئي هلادينے والا تجربه(shocking experience)پيش آئے جو اس كے ليے ايك نقطه انقلاب(turning point)بن جائے، مگر بهت كم لوگوں كو اِس قسم كا هلادينے والا تجربه پيش آتا هے، مزیدیہ کہ ايسا هلادينے والا تجربه اور بھی نادر(rare) هے، جب كه وه آدمي كے ليے مثبت انقلاب كا سبب بن جائے۔

3۔  اپنے تجربے كي روشني ميں ايسے والدين كو ميرا مشوره يه هے كه وه اپني اولاد كو همارے يهاں كا مطبوعه لٹريچر اهتمام كے ساتھ پڑھوائيں، صرف ايك بار نهيں، بلكه بار بار۔ اِسي كے ساتھ وه كوشش كريں كه اُن كے بچے همارے يهاں كے تيار شده آڈيو اور ويڈيو ديكھيں اور سنيں۔ یہ تمام آڈیو اور ویڈیو ہماری ویب سائٹ  (www.cpsglobal.org) پر دستیاب ہیں۔ مزيد يه كه دهلي ميں هونے والا همارا هفتے وار لكچر كا پروگرام پابندي كے ساتھ سنيں ،جو كه هر اتوار كي صبح كو ساڑھے دس بجے (IST) شروع هوتا هے۔اس پروگرام کو سی پی ایس انٹرنیشنل کے آفیشل فیس بک پیج (www.fb.com/maulanawkhan)پر لائیو دیکھا جاسکتا ہے۔

4۔ يه لازمي نوعيت كا ابتدائي پروگرام هے۔ جو والدين اپنے بچوں كي اصلاح وتربيت كے خواهش مند هوں، اُن كو اِسے اختيار كرنا چاهيے۔ اگر وه اِس كو اختيار نه كريں تو كوئي بھي جادوئي تدبير بچوں كي اصلاح كے ليے كار آمد نهيں هوسكتي۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom