ایک اچھی مثال

ایک بار دہلی کے ایک کالج کے استاد نے بتایا کہ دہلی میں طلبا کا ایک تقریری مقابلہ ہوا۔ اِس میں مختلف کالجوں کے منتخب طلبا اور طالبات نے شرکت کی۔ ہر طالب علم کو انگریزی زبان میں تقریر کرنا تھا۔ اِن تقریروں میں جج کو جو بنیادی چیز دیکھنا تھا، وہ طرز ادا یا طرزِ تقریر (delivery) تھا۔ ڈاکٹر مرچنٹ کی لڑکی کا طرزِ تقریر سب سے زیادہ کامیاب تھا، چنانچہ اُس کو پہلا انعام دیاگیا۔

اِس کامیابی کا راز کیا تھا، اِس کا جواب مجھے 26 اگست 2009 کو ملا۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام کے دوران میری ملاقات ڈاکٹر آر کے مرچنٹ سے ہوئی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور دہلی میں رہتے ہیں۔ اُن سے ملاقات کے دوران رٹائرڈ جنرل چھبّر اور دوسرے کئی لوگ موجود تھے۔ ڈاکٹر مرچنٹ نے کہا کہ میرے گھر میں ٹی وی نہیں ہے، میں ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتا ہوں۔ ان کی اِس بات میںمجھے اِس سوال کا جواب مل گیا کہ اُن کے بچے کیوںتعلیم میںاتنا زیادہ کامیاب ہیں۔اِس سے پہلے میںایک بار ڈاکٹر مرچنٹ کے گھر گیا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا تھا کہ اُن کا گھر بہت سادہ ہے۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں۔ دونوں خاموشی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتی ہیں۔ڈاکٹر مرچنٹ کے پاس ذاتی کار ہے، لیکن ان کی لڑکیاں ہمیشہ بس کے ذریعے اسکول جاتی ہیں۔ ان کے گھر میں ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا کوئی نشان مجھے نظر نہیں آیا— یہی سادہ اور با اصول زندگی ڈاکٹر مرچنٹ کے بچوں کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔

آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طورپر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کرسکیں۔ وہ اپنے بچوں کو ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کااصل سبب ہے۔ اِس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom