اولاد سے تربیت

ایک صاحب سگرٹ كے عادي تھے اور روزانه تين پيكٹ پي جاتے تھے۔ ’’سگريٹ پينا صحت كے لئے مضر هے‘‘، ’’سگرٹ پينا اپنے كمائے هوئے پيسه كو آگ لگانا هے‘‘۔ اس قسم كي كوئي بھي دليل ان كو سگرٹ چھوڑنے پر آماده نهيں كرسكتي تھي۔ حتي كه وه اپنے دستوں كو بھي اصرار كركے پلاتے۔ چائے پينے كے بعد وه سگرٹ كاكش لينے كو اتنا ضروري سمجھتے تھے كه وه اپنے دوستوں سے كهتے ’’جو آدمي چائے پي كر سگرٹ نه پئے اس كو چاهئے پينے كا حق نهيں‘‘۔

مگر ايك چھوٹے سے واقعه نے ان كي محبوب سگرٹ ان سے چھڑا دي۔ سگرٹ كے ٹكڑے جو وه پينے كے بعد پھينكتے ان كو ان كا تين ساله بچه فاروق قيصر اٹھا ليتا اور منھ ميں لگا كر پيتا۔ ملك عبد الشكور صاحب اس كو منع كرتے مگر وه نه مانتا۔ ايك روز ايسا هوا كه بچه كي ماں نے سختي سے بچه كو منع كيا تو بچه نے كها:’’ابا بھي تو پيتےهيں‘‘ ملك عبد الشكور صاحب نے بچه كي زبان سے يه سنا تو ان كو سخت جھٹكا لگا۔ اگر چه وه دوستوں كے سامنے اپني سگرٹ نوشي پر قصيده پڑھتے تھے،مگر ان كا دل خوب جانتا تھا كه سگرٹ پينا ايك بري عادت هے جس كا انجام نه صرف صحت اور پيسه كي بربادي هے بلكه وه اخلاق كو بھي بگاڑنے والا هے۔ جب كوئي شخص ان سے سگرٹ چھوڑنے كو كهتا تو وه اس كے خلاف لفظي دلائل كا انبار لگا ديتے۔ مگر ان دلائل كي حقيقت اس كے سوا اوركچھ نه تھي كه وه اپنے ايك ’’نشه‘‘ كو چھوڑنے كے لئے تيار نه تھے، اوراس كے لئے بھي تيار نه تھے كه اپني غلطي كو مان ليں۔ اس لئے وه لفظي تاويلات كے سهارے اپنے كو حق بجانب ثابت كرتے تھے۔ وه اس كي ضرورت هي نهيں سمجھتے تھے كه سگرٹ كے خلاف كسي دليل پر سنجيدگي كے ساتھ غور كريں۔

مگر جب سگرٹ كا سوال بچه كي زندگي كا سوال بن گيا تو اچانك وه سنجيده هوگئے۔ ان كے ذهن سےوه تمام پردے هٹ گئے جنھوں نے ايك ساده سي حقيقت كو سمجھنا ان كے لئے ناممكن بنا ديا تھا۔ جو شخص مضبوط دلائل كے آگے هتھيار ڈالنے پر تيار نه هوتا تھا وه ايك بچه كے كمزور الفاظ كے آگے بالكل ڈھ گيا۔ ’’اگر ميں خود سگرٹ پيتا رهوں تو ميں اپنے بچه كو سگرٹ پينے سے باز نهيں ركھ سكتا‘‘۔ انھوں نے سوچا ، بچه كا يه كهنا كه ’’ابا بھي تو پيتے هيں‘‘ ان كے لئے ايك ايسا هتھوڑا بن گيا جس كي ضرب كو برداشت كرنے كي طاقت ان كے اندر نه تھي۔ بچه كي زبان سے يه الفاظ سن كر ان كو سخت جھٹكا لگا۔ انھوں نےايك لمحه كے اندر وه فيصله كرليا جس كے ليے ان كے دوستوں كو مهينوں اور سالوں كي كوشش بھي ناكافي ثابت هوئي تھي۔ يه رمضان كا مهينه تھا۔ انھوں نےطے كرلياكه وه سگرٹ پينا بالكل چھوڑ ديں گے۔ انھوں نے نه صرف اگلے دن سگرٹ نهيں پي بلكه مستقل طورپر سگرٹ نوشي ترك كردي۔

ان كو سگرٹ سے محبت تھي۔ مگر بيٹے سے اس سے زياده محبت تھي۔ اس نے بيٹے كي خاطر سگرٹ كو چھوڑ ديا۔ اسي طرح هر آدمي كو اپنے مفادات اور مصالح سے محبت هوتي هے۔ اسلام يه هے كه خدا كي محبت اتني بڑھ جائے كه اس كي خاطر آدمي دنيا كے مفادات اور مصالح كو قربان كردے۔

امریکا میں مقیم ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نےکہا کہ اپنے بچوں کے بارے میں ہم کو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمارے بعد دینی اعتبار سے اِن بچوں کا کیا حال ہوگا۔ انھوں نےبتایا کہ ہمارے بچے سیکولر اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ البتہ ہم اپنے گھر پر اسی کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا میں اس کو ہوم اسکولنگ (home schooling)کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ جب آپ نے امریکا میں رہنے کا فیصلہ کیا تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ یہاں کے کلچر سے اپنے بچوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ ہوم اسکولنگ کے ذریعہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کاغذ کی دیوار سے سیلاب کا مقابلہ کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ غالباً کوئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں جس کی مثال کو لے کر یہ کہا جاسکے کہ ہوم اسکولنگ کا طریقہ اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف گھر کے ماحول کو بدلا جائے، اور دوسری طرف بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا جائے۔ گھر میں سادگی (simplicity)اور بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیے بغیر اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom