گھر کا ماحول
آج کل یہ حال ہے کہ سیکولر آدمی اور مذہبی آدمی کا فرق باہر کی زندگی میں تو نظر آتا ہے، لیکن گھر کی زندگی میں یہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ بہ ظاہر دونوں کا لباس الگ ہوتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر گڈ مارننگ (good-morning) کہتا ہے تو مذہبی آدمی السلام علیکم کہتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر کلب (club) جاتا ہے تو مذہبی آدمی مسجد جاتا ہے، وغیرہ۔ لیکن یہ فرق باہر کی زندگی کی حد تک ہے۔ گھر کے اندر کے ماحول کو دیکھيے تو سیکولر آدمی کے گھر اور مذہبی آدمی کے گھر کے درمیان کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ اور اگر کوئی فرق ہوگا تو وہ صرف ظاہری رسم کے اعتبار سے ہوگا، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قرآن میں دونوں قسم کے گھروں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ غیر مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کو جاننے کے لیے قرآن کی اِس آیت کا مطالعہ کیجيے: إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا (84:13)۔ یعنی، وہ اپنے اہل کے درمیان خوش رہتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مذہبی انسان کی زندگی خاندان رُخی (family-oriented) زندگی ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں آکر محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے لوگوں کے درمیان آگیا۔ وہ اپنا سارا وقت اور اپنا پیسہ اپنے اہلِ خاندان میں خرچ کرتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کہ میں نے اپنے وقت اور اپنے پیسے کا صحیح استعمال کیا۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس کی دل چسپیوں اور اس کی سرگرمیوں کا مرکز اس کے اہلِ خاندان ہوتے ہیں۔ جو لوگ اِس طرح زندگی گزاریں، وہ کبھی خدا کے مطلوب بندے نہیں بن سکتے، خدا کی ابدی رحمتوں میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔
مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کتابِ الٰہی کی اِس آیت میں ملتی ہے:قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (52:26)۔ یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ اِس سے پہلے ہم اپنے اہل کے درمیان ڈرتے رہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سچا مذہبی انسان وہ ہے جو ہر وقت خدا کی پکڑ سے ڈرتا ہو، خواہ وہ اپنے گھر کے باہر ہو یا اپنے گھر کے اندر۔ وہ مواخذہ (accountability) کی نفسیات کے تحت زندگی گزارتا ہے، نہ کہ بے خوفی کی نفسیات کے تحت۔