بچوں کا قبرستان

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہمارے مشن سے جڑے ہوئے تھے۔ اُس وقت ان کے یہاں اولاد نہیں تھی، پھر ان کے یہاں بچے پیدا ہوئے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے مشن سے دور ہوگئے۔ ایک عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے دعوتی کام کو کیوں چھوڑ دیا۔ انھوں نے کہا— بچوںکی ذمے داریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب وقت نہیں ملتا۔

موجودہ زمانے میں یہی کم و بیش ہر آدمی کا حال ہے۔ لوگوں کے لیے ان کے بچے ان کا قبرستان بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے اس کے بچے اس کا واحد کنسرنہیں۔ ہر آدمی اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی انرجی، غرض جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اس کو اپنے بچوں کے لیے وقف کيے ہوئے ہے۔ دوسروں کے لیے اس کے پاس صرف زبانی ہمدردی(lip service) ہوتی ہے، اور اپنی اولاد کے لیے حقیقی عمل، حتی کہ خدا کے لیے یا خدائی کام کے لیے بھی اس کے پاس صرف الفاظ ہوتے ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

آج جس شخص سے ملاقات کیجيے، وہ اپنے بچوں کے لیے فکر مند ہوگا، لیکن وہ خود اپنے مستقبل کے لیے فکر مند دکھائی نہ دے گا۔ یہ عین وہی صورتِ حال ہے جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہےکہ دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھو دینا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966)۔ اِس معاملے کا سب سے زیادہ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ لوگ محبتِ اولاد میں اتنا زیادہ غرق ہیں کہ وہ اِس حدیثِ رسول کا مصداق بن گئے ہیں: حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 5130) ۔ یعنی کسی چیز سے تمہاری محبت تم کو اندھا اور بہرا بنادیتی ہے۔ اولاد کی محبت ان پر اتنا زیادہ غالب ہے کہ وہ یہ بھی سوچ نہیں پاتے کہ ہم اولاد کے مستقبل کو بنانے کی فکر میں خود اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ اِس بنا پر لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے وقت نہیں۔ مثلاً دینی مطالعہ، دعوہ ورک، آخرت کو سامنے رکھ کر اپنے معاملات کی منصوبہ بندی، وغیرہ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom