ڈفرنٹلی ایبلڈ پرسن
اكتوبر 2000ءمیں مَیں نے بھوپال كا سفر کیا ۔ اس دوران میں نے جو چیزیں دیکھیں، ان میں سے ایک رفاهي اداره بھی تھا، جو ڈفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس كا نام شبھم وكلانگ سيوا سميتي هے۔ يه اداره 1980ء ميں قائم هواہے۔ ميں نے ان بچوں كو ديكھا جن كي تعداد 63 هے ان ميں هندو اور مسلمان دونوں بچے شامل هيں۔ ميں نے كئي بچوں سے بات كي دوبچوں سے هونے والي بات كو يهاں نقل كيا جاتا هے۔
سنتوش چورسيه (عمر 14 سال) سے ميں نے پوچھا كه آپ يهاں كيا كرتےهيں۔ انھوں نے كها كه پڑھتےهيں۔ ميں نے پوچھا كه آپ كيا سوچتے هيں۔ انھوں نے جواب ديا كه پڑھ لكھ كر ميں اپنے پيروں پر كھڑاهوں گا۔ ايك بچه جس نےاپنا نام شنكر شرما (عمر 12 سال) بتايا۔وه بھي اپنے دونوں پيروں سے معذور تھا۔ ميں نے پوچھا كه آپ پڑھنے كے بعد كيا كريں گے۔ اس نے جواب ديا ميں پڑھ كر اپنے پيروں پر كھڑا هونا چاهتا هوں۔ يه بات وه بچے كهه رهے تھے جو اپنے دونوں پيروں سے معذور تھے اور جسماني طورپر كھڑے نهيں هوسكتےتھے۔ ميں نے سوچا كه علم ميں كيسي عجيب طاقت هے۔ علم آدمي كو اس حد تك با شعور بناتا هے كه وه جسماني طورپر كمزور هوتے هوئے بھي ذهني طورپر اتنا طاقتور هوجائے كه اس كي جسماني كمزوري ترقي كي راه ميں حائل نه هوسكے۔
مزید یہ کہ موجودہ زمانے میں یہ بات ریسرچ سے ثابت ہوگئی ہےکہ کوئی شخص مطلق معنوں میں قوی یا ضعیف نہیں ہوتا۔ چنانچہ پہلے معذور کے لیے ڈس ایبلڈ (disabled) کا لفظ بولا جاتا تھا۔ مگر اب یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔ اب ایسے افراد کو ڈفرینٹلی ایبلڈ (differently abled) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک اعتبار سے معذور اور دوسرے اعتبار سے طاقت ور۔