عظمتِ انسانی
وسیع خلا (space) میں بے شمار ستارے (stars)اور سیارے (planets) اور کہکشائیں (galaxies)ہیں۔ اس میں شمسی نظام (solar system) ہے جس میں بہت سے سیارے ہیں۔ اُن کے درمیان ایک استثنائی سیارہ ہے جس کو زمین کہاجاتا ہے۔ اِس زمین پر لاتعداد مخلوقات ہیں۔ اِن لاتعداد مخلوقات کے ہجوم میں انسان ہے جو انوکھی صفات کا حامل ہے۔
ایسی وسیع کائنات (vast universe)میں ایک انسان زمین پر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ بول کر انسانی الفاظ میں کہتا ہے کہ — خدایا، تو رب العالمین ہے۔ میں نے تیری تمام صفتوں کے ساتھ تیری کبریائی کا اعتراف کیا۔ میں تیرے آگے اپنے پورے وجود کے ساتھ سرینڈر کرتاہوں۔
انسان کے یہ الفاظ خلا میں گونجتے ہیں۔ ان کوکان والے بھی سنتے ہیں اور بغیر کان والے بھی۔ پھرساری کائنات زبانِ حال سے پکار اٹھتی ہے — دیکھو، یہ انسان بھی کتنا قابلِ رشک ہے۔ ہماری تخلیق میں پہلے سے خدا کی معرفت موجود تھی، انسان نے خود اپنی کوشش سے خدا کو دریافت کیا۔ ہم بولے بغیر خدا کی حمد کررہے تھے، یہ انسان بول کر خدا کی حمدکررہا ہے۔ ہم مجبورانہ اطاعت پر قائم تھے، انسان نے اختیارانہ اطاعت پر اپنے کو قائم کیا۔ ہم غیر شعوری سطح پر خدا سے تعلق قا ئم کر پائے تھے، انسان شعور کی سطح پر دریافت کئے ہوئے الفاظ میں خالق کا نغمہ گارہا ہے۔ ہم حالتِ مشہود میں خالق کا اقرار کررہے تھے، انسان حالتِ غیب میں ہوتے ہوئے خالق کا اعتراف کررہا ہے۔ ہم گویا مقلدانہ انداز میں خدا کی عبادت کررہے تھے، انسان تخلیقی (creative) انداز میں خدا کا عبادت گزار بنا ہوا ہے۔ ہم زبانِ حال سے خدا کی بڑائی بیان کررہے تھے، انسان زبانِ قال سے خدا کی بڑائی بیان کررہا ہے۔ ہم محدود سطح پر خدا کی تسبیح کررہے تھے۔ انسان لامحدود سطح پر خدا کی تسبیح کرنے والا بنا ہوا ہے۔
یہی اعلیٰ معرفت ہے۔ اِس قسم کی شعوری معرفت ساری کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔ یہی وہ اعلیٰ معرفت والے لوگ ہیں جو جنت الفردوس میں داخل کئے جائیں گے۔