ایک صحابی کی مثال
مسلم بن بشیر کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ اپنی بیماری میں روئے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ اے ابوہریرہ، کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے۔ انھوں نے کہا: میں تمھاری اِس دنیا کے لیے نہیں روتا، بلکہ میں تو اِس لیے روتا ہوں کہ میرا سفر لمبا ہے اورزادِ راہ کم ہے۔ میں نے ایک ایسے ٹیلے پر صبح کی ہے جو جنت اور جہنم کی طرف اتر رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھ کو اِن دونوں میں سے کس طرف چلایا جائے گا (بَكَى أَبُو هُرَيْرَةَ فِي مَرَضِهِ فَقِيلَ لَهُ:مَا يُبْكِيكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ:أَمَا إِنِّي لا أَبْكِي عَلَى دُنْيَاكُمْ هَذِهِ وَلَكِنِّي أَبْكِي لِبُعْدِ سَفَرِي وَقِلَّةِ زَادِي. أَصْبَحْتُ فِي صُعُودٍ مُهْبِطَةٌ عَلَى جُنَّةٍ وَنَارٍ فَلَا أَدْرِي إِلَى أَيِّهِمَا يُسْلَكُ بِي)۔ الطبقات الکبری لابن سعد، 4/253۔
صحابیٔ رسول کا یہ کلمہ اعلیٰ معرفت کا کلمہ ہے۔ جب انسان کی معرفت بڑھتی ہے تو اُس وقت اُس کا حال وہی ہوجاتا ہے جس کی ایک مثال صحابی ٔ رسول کے مذکورہ قول میں ملتی ہے۔
اعلیٰ معرفت کیا ہے۔ اعلیٰ معرفت یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اس کی عظمت وجلال کے ساتھ دریافت کرلے۔ جب کوئی انسان اللہ کو اس کی عظمت وجلال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اس کی نظر میں اس کا اپنا وجود بالکل حقیر بن جاتا ہے۔ وہ جنت کے مقابلے میں اپنے اعمال کو بے حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کے پاس خدا کے دربار میں پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ یہی احساس اس کو اُس آخری حد تک پہنچا دیتا ہے جس کی تصویر حضرت ابو ہریرہ کے مذکورہ قول میں نظر آتی ہے۔ ایک طرف، اللہ کا ارحم الراحمین ہونا، اُس کے اندر امید کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف، اپنے عمل کی بے بضاعتی کو دیکھ کر وہ اس احساس میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میں کسی بھی انعام کا مستحق نہیں۔ بے حس انسان صرف اپنے پلس پوائنٹ کو دیکھتا ہے اور حساس انسان کو صرف اپنا مائنس پوائنٹ دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو عارف انسان کو غیر عارف انسان سے الگ کرتاہے۔