معرفت ایک خدائی عطیہ
انسان بے شمار چیزوں کا ضرورت مند ہے۔ مگر ان ضرورت کی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز وہ خود سے پیدا نہیں کرسکتا۔ یہ تمام چیزیں خدا کی طرف سے انسان کو یک طرفہ عطیہ کے طور پر ملتی ہیں۔ خدا اگر یہ عطیہ نہ دے تو انسان آخری حد تک تباہ ہو کر رہ جائے۔
انسانی زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جہاں سے معرفتِ رب کا آغاز ہوتا ہے۔ کوئی انسان جب اپنی اِس حیثیت کو شعوری طورپر دریافت کرتاہے تو وہ خدائی فیضان کا وِعایہ (container) بن جاتا ہے۔ کسی انسان کے اندر اِس قسم کے شعور کا پیدا ہونا، خدا کے ساتھ اس کی صحیح نسبت کا قائم ہوجانا ہے۔ جب کسی انسان کو یہ نسبت حاصل ہوجائے تو اس کے بعد وہ مسلسل طورپر خدائی فیضان (divine inspiration) پانے لگتا ہے۔ایسے انسان کے اندر معرفتِ رب کا عمل (process) جاری ہوجاتا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے کوئی منفی سبب پیدا نہ کرے تو معرفت کا یہ عمل اس کے اندر برابر جاری رہے گا۔ اس کی معرفت مسلسل ترقی کرتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ اپنے حدِ کمال کو پہنچ جائے۔
معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی عطیہ (divine gift) ہے۔ دنیا میں جس انسان کو معرفت کا عطیہ ملا، وہی وہ انسان ہے جو آخرت میں جنت کے عطیہ کا مستحق قرار پائے گا۔ معرفت گویا کہ کسی انسان کے لیے خدا کا دنیوی انعام ہے، اور جنت کسی انسان کے لیے خداکا اُخروی انعام۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت سچائی کی سیٹ (القمر، 54:55) پر ہوں گے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ جو چیز کسی انسان کو جنت کے لیے غیر مستحق بناتی ہے، وہ کذب (جھوٹ) ہے، کذبِ جلی بھی اور کذبِ خفی بھی۔ جو آدمی اپنے آپ کو ہر قسم کے کذب سے بچائے، وہی وہ انسان ہے جو جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے گا۔ معرفت آدمی کو سچا انسان بناتی ہے اور سچائی انسان کو جنت تک پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔