معرفت کا ذریعہ
معرفت کا ذریعہ کسی قسم کے اوراد واشغال نہیں ہیں۔ معرفت ایک زندہ دریافت کا نام ہے۔ معرفت کے حصول کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے، غور وفکر کے ذریعے اپنے اندر وہ صلاحیت پیدا کرنا، جب کہ آدمی مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے دوران معرفت کا رزق پاتا رہے۔ وہ روز مرہ کے واقعات کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر معرفت کی دریافت کرتا رہے۔ مثال کے طور پر آپ قرآن کی سورہ النساء پڑھ رہے ہیں۔ آپ اِس آیت تک پہنچتے ہیں: وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (4:20)۔ یعنی اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اس کو بہت سامال دے چکے ہو، تو تم اُس میں سے کچھ واپس نہ لو۔
قرآن کی اِس آیت پر غور کرتے ہوئے آپ کی سمجھ میں آتا ہے کہ دئے ہوئے مال کو واپس نہ لینا، یہ ایک شرافت کا معاملہ ہے۔ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی شرافت کا حکم دیا ہے اور غیر شریفانہ طرزِ عمل سے منع کیا ہے — پھر آپ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس شرافت کا حکم دیا ہے، وہ شرافت خود اللہ تعالیٰ میں بے حساب گنا زیادہ ہوگی۔ یہ سوچتے ہوئے آپ تڑپ اٹھتے ہیں اور آنسوؤں کی زبان میں یہ کہتے ہیں کہ — خدایا، تونے دنیا میں مجھ کو ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمائیں۔ اب کیا آخرت میں تو اِن نعمتوں کو مجھ سے چھین لے گا۔ موت سے پہلے کی زندگی میں تو نے مجھ کو جنت میں رکھا۔ یہ تیری اعلیٰ شرافت کے خلاف ہے کہ تو موت کے بعد کی زندگی میں مجھ کو جہنم میں ڈال دے۔
اِسی کا نام پوائنٹ آف ریفرنس ہے، یعنی واقعات اور تجربات کے حوالے سے اللہ کو یاد کرنا، واقعات اور تجربات کو تخلیقی معرفت کا ذریعہ بنا لینا۔ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جو اِس انداز میں اپنے ذہن کی تربیت کرے، دوسرا کوئی طریقہ معرفت کے حصول کا نہیں۔