محبت الٰہی
قرآن کی سورہ البقرہ میں اہلِ ایمان کی ایک بنیادی صفت اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (2:165) یعنی جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھنے والے ہیں۔ قرآن کی اِس آیت میں اہلِ ایمان سے مراد اہلِ معرفت ہیں۔ جو شخص دریافت کے درجے میں خدا کو پائے، وہ ایک صاحبِ معرفت انسان بن جاتا ہے، اور جو انسان صاحب معرفت ہو، اس کے جذبات تمام تر خدا کے ساتھ وابستہ ہوجائیں گے۔ خدا اس کے قلب و دماغ کا واحد مرکز بن جائے گا۔
انسان اپنی محدودیت (limitations)کی بنا پر موجودہ دنیا میں خدا کو نہیں دیکھتا، لیکن وہ خدا کی رحمتوں (blessings) کا ہر آن تجربہ کرتا ہے، اور یہی تجربہ محبتِ الٰہی کا اصل سرچشمہ ہے۔ آدمی کو اِس دنیا میں جو کچھ ملا ہوا، وہ سب کا سب خدا کی رحمت ہے۔ آدمی جتنا زیادہ اِن ملی ہوئی چیزوں پر غور کرے گا، اتنا ہی زیادہ خدا کے ساتھ اس کی محبت بڑھتی چلی جائے گی۔ خدا سے محبت کا سرچشمہ انعام کی دریافت ہے، نہ کہ منعم کا مشاہدہ۔
انسان کو کس نے پیداکیا، خدا نے۔ انسان کو مختلف قسم کی اعلیٰ صلاحیتیں کس نے دیں، خدا نے۔ انسان کے لیے زمین جیسا ایک استثنائی سیارہ کس نے بنایا، خدا نے۔ انسان کے لیے یہاں لائف سپورٹ سسٹم کس نے قائم کیا، خدا نے۔ انسان کی تمام حاجتوں کی تکمیل کا انتظام کس نے کیا ، خدا نے۔ انسان کو وہ دماغ کس نے دیا جو زمین پر رہتے ہوئے ساری کائنات کا احاطہ کرسکتا ہے، خدا نے۔
اِنھیں تمام انعام (blessings) کے منعم (giver) کی دریافت کا نام معرفت ہے۔ کسی انسان کو جب یہ معرفت حقیقی معنوں میں حاصل ہوجائے تو اس کے اندر خدا سے محبت کا سرچشمہ ابل پڑتا ہے۔ اس کے دل کی گہرائیاں خدا کی محبت سے روشن ہوجاتی ہیں۔
خدا کی اطاعت بلا شبہ ایمان کا تقاضا ہے، لیکن یہ خدا سے محبت کی تصغیر (underestimation) ہے کہ اُس کو صرف اطاعت کے معنی میں لیا جائے۔ اطاعت، خدا سے تعلق کا صرف ایک قانونی اظہار ہے، جب کہ محبت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا پورا وجود خدا کی یاد میں ڈھل گیا، انسان اپنی پوری ہستی کے ساتھ خدا کا اعترافِ کامل کرنے والا بن گیا۔