معرفت اور دعا
دعا ایک عارفانہ روح سے نکلتی ہے۔ معرفت کے بغیر دعا صرف تکرارِ الفاظ ہے۔ عارفانہ دعا ہی حقیقی معنی میں دعا ہے۔ جو دعا معرفت سے خالی ہو، اس کی حیثیت صرف ایک قسم کی لپ سروس (lip service) کی ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ دعا ایک عبادت ہے، اور حقیقی عبادت وہی ہے جس میں اللہ رب العالمین کی معرفت شامل ہو۔
دعا کی دو قسمیں ہیں۔ ایک دعا وہ ہے جو اپنی کسی حاجت کے لیے کی جائے، جس میں دعا کرنے والا اپنے کسی ذاتی مسئلے کا حوالہ دے کر اللہ سے اس کے حل کی درخواست کرے۔ مثال کے طورپر ایک بے روزگار انسان کا روزگار حاصل کرنے کے لیے اللہ سے دعا کرنا۔ یہ عام قسم کی دعا ہے۔ یہ دعا بھی ایک مطلوب دعا ہے اور اخلاص کے بقدر آدمی کو اس کا ثواب ملتا ہے۔ یہ اللہ کے اوپر منحصر ہے کہ وہ ایسی دعا کو سن کر فوراً اس کو پورا کردے یا اس کو مستقبل کے خانے میں ڈال دے۔
دوسری دعا وہ ہے جس میں دعا کرنے والا اِس طرح دعا کرے کہ اس کا مسئلہ خود خدا کا مسئلہ بن جائے۔ مثلاً قدیم اسپین میں قحط کے وقت سلطان عبد الرحمن الناصر (وفات961 ء) کی دعا جس میں اس نے کہا تھا: هَذِهِ نَاصِيَتِي بِيَدَيْكَ، أَتُرَاكَ تُعَذِّبُ هَذَا الْخَلْقَ لِأَجْلِي، وَأَنْتَ أَحكمُ الحَاكمِينَ، لَنْ يَفُوتك شَيْءٌ مِنِّي (تاریخ الاسلام للذہبی، 25/444)۔ یعنی یہ میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، کیا تو ایسا کرے گا کہ اس مخلوق کو میری وجہ سے سزا دے، تو حاکموں کا حاکم ہے، میری کوئی چیز تجھ سے ہرگز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اِس دعا میں قحط کے زمانے میں بارش کو خود خدا کی رحمت کا تقاضا قرار دیاگیا ہے، نہ کہ صرف انسان کی ضرورت کا تقاضا۔
پہلی قسم کی دعا محض انسانی تقاضے کے تحت ظہور میں آتی ہے۔ لیکن دوسری قسم کی دعا ہمیشہ گہری معرفت کے تحت کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسری قسم کی دعا ہمیشہ عارفانہ دریافت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس قسم کی دعا ہمیشہ کسی آدمی کے دل سے اُس وقت نکلتی ہے جب کہ اس کو اللہ کی قربت کا خصوصی تجربہ ہوا ہو۔ اس قسم کی دعا کی بہت سی مثالیں حدیث میں آئی ہیں۔