اعلیٰ معرفت
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2956)۔ یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور غیر مومن کے لیے جنت۔
اِس حدیث کو عام طورپر مادی معنی میں لیاجاتا ہے، یعنی دنیا کی مادی چیزوں میں مومن کو سکون نہیں ملتا، جب کہ غیر مومن اِن مادی چیزوں کو پاکر خوش ہوجاتا ہے۔ یا یہ کہ مومن کو شریعت کے نواہی (ممنوعات) میں جینا پڑتا ہے، جب کہ غیر مومن اپنے آپ کو اِس قسم کی شرعی پابندیوں سے آزاد سمجھتا ہے۔
لیکن اِس حدیث کا ایک اور مطلب ہے جو اعلیٰ معرفت سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک مومن جب حقیقت کی دریافت کے اُس ارتقائی مرحلے پر پہنچتا ہے جہاں اُس کو اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے، اُس وقت دنیا اُس کے لیے ایسی ہوجاتی ہے جیسے کہ وہ ایک نفسیاتی قید خانے میں ہے، جیسے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اُس کے لیے بنائی نہیں گئی، جہاں اُس کی روحانی تسکین کا سامان موجود نہیں۔
ایسے مومن کو جب اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اُس کا وجود اِس کا متحمل نہیں، اُس کے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعے وہ اپنی عارفانہ دریافت کو بیان کرسکے، اس کے پاس ایسے سامعین نہیں جو اس کی باتوں کو سمجھ سکتے ہوں، اُس کے آس پاس وہ ماحول نہیں جہاں وہ اپنی معرفت کے ساتھ جی سکے۔
ایسا باشعور مومن ہر لمحہ یہ محسوس کرتا ہے جیسے کہ وہ ایک قفس میں ہے، تمام چیزیں اس کو اپنی عارفانہ سطح کے اعتبار سے غیر موافق نظر آتی ہیں۔ یہی اعلیٰ کیفیت کسی انسان کے لیے جنت میں داخلے کا سرٹفکٹ ہے۔ خدا جس انسان کو ایسی حالت میں پاتا ہے تو وہ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے اِس بندے کو جنت میں داخل کردو، کیوں کہ جنت کو میں نے ایسے ہی بندوں کے لیے بنایا ہے۔ جنت ایسے ہی بندوں کے لیے ہے اور ایسے بندے صرف جنت کے لیے۔