عارفانہ شخصیت
حدیث میں آیا ہے: اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ (سنن الترمذی،حدیث نمبر 3127 ) یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
اِس حدیث میں فراستِ مومن سے مراد فراستِ عارف (wisdom of a realized person) ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس شخص کو معرفت حاصل ہوجائے، وہ ایک بے پناہ شخص بن جاتا ہے۔ وہ خدا کی روشنی میں چلنے لگتا ہے، اور خدا کی روشنی کو بجھانے کی طاقت کسی کے اندر بھی نہیں۔
جس آدمی کو معرفت کے درجے میں ایمان حاصل ہو جائے، وہ انتہائی حدتک ایک باشعور انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے جس کو ذہنی بیداری (intellectual awakening) کہاجاتا ہے۔ وہ ایک نفس مطمئنہ (complex-free soul) بن جاتا ہے۔ اس کے اندر فرقان (الانفال، 8:29) کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرکے دیکھنا۔ اس کے اندر مستقبل بینی کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی فکر کے اندر وہ گہرائی پیداہوجاتی ہے، جب کہ آدمی چیزوں کے اضافی پہلو کو دیکھ سکے۔ یہی وہ صفت ہے جس کے بارے میں کہاگیا ہے:
A wise man is one who knows the relative value of things.
معرفت کسی آدمی کے اندر زہد کی صفت پیدا کردیتی ہے، یعنی دنیا سے بے ر غبتی۔ یہی وہ انسان ہے جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: مَا زَهِدَ عَبْدٌ فِي الدُّنْيَا إِلَّا أَثْبَتَ اللهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ، وَأَنْطَقَ لَهَا لِسَانَهُ وَبَصَّرَهُ عَيْبَ الدُّنْيَا وَدَاءَهَا وَدَوَاءَهَا، وَأَخْرَجَهُ مِنْهَا سَالِمًا إِلَى دَارِ السَّلَامِ ( شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 10050 )، یعنی جو بندہ دنیا سے بے رغبت ہوجاتا ہے تو اللہ اس کے دل میں حکمت کی پہچان ڈال دیتا ہے اور اس کی زبان پر حکمت کو جاری کردیتا ہے، اس کو وہ دنیا کے عیب دکھا دیتا ہے، اس کو وہ دنیا کی بیماری اور اس کے علاج سے باخبر کردیتا ہے، اور اس کو وہ دار السلام (جنت) تک سلامتی کے ساتھ پہنچا دیتا ہے۔