سفر ِ معرفت
خدا کی معرفت کا سفر لا الٰہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر وہ الاّ اللہ تک پہنچتا ہے۔ آدمی کو پہلے متلاشی (seeker) بننا پڑتا ہے، اِس کے بعد وہ دریافت کرنے والے (finder) کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ سفرِ معرفت کی یہی ترتیب عام انسان کے لیے بھی ہے اور یہی ترتیب پیغمبر کے لیے بھی۔
عربی زبان کا ایک مقولہ ہے: لا أدري، نصف العلم (میں نہیں جانتا،آدھا علم ہے) آدمی کو پہلے اپنی لاعلمی کو دریافت کرنا پڑتاہے، اِس کے بعد اس کے اندر تلاش کا وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کو روحِ تجسس (spirit of enquiry) کہاجاتاہے۔ لاعلمی کا یہ جذبہ جتنا زیادہ شدید ہوگا، اتنی ہی زیادہ بڑی معرفت آدمی کو حاصل ہوگی۔ یہ ایک ایسی فطری حقیقت ہے جس میں کوئی استثنا نہیں۔
معرفت کوئی وراثتی چیز نہیں جو باپ سے بیٹے کو اور بیٹے سے پوتے کو مل جائے، معرفت انتہائی حد تک ایک ذاتی نوعیت کی چیز ہے۔ خدا کی معرفت کسی کو ملے گی تو وہ صرف ذاتی کوشش سے ملے گی، ذاتی کوشش کے بغیر ہر گز کسی کو خدا کی معرفت ملنے والی نہیں۔ ذاتی کوشش کے بغیر جو چیز کسی آدمی کو ملے گی، وہ ایک رسمی عقیدہ ہوگا، نہ کہ زندہ معرفت۔
معرفت کا تعلق آدمی کی پوری شخصیت سے ہے۔ معرفت ابتداء ً کسی شخص کو ذہن کی سطح پر حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے بعد وہ فطری عمل کے تحت اس کی پوری شخصیت کے اندر سرایت کرجاتی ہے۔ معرفت کا حصول کسی آدمی کے لیے اِس بات کو یقینی بنا دیتاہے کہ اس کی پوری شخصیت معرفت کے رنگ میں رنگ جائے، اس کی زندگی کا کوئی پہلو اس کے اثر سے خالی نہ رہے۔
معرفت کا سفر دراصل دریافت(discovery) کا سفر ہے۔ یہ دریافت ساری عمر جاری رہتی ہے۔ جو آدمی یہ سمجھے کہ اس نے کامل معرفت حاصل کرلی، اس کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس نے معرفت کو سرے سے دریافت (discover) ہی نہیں کیا۔