معرفت ایک دریافت
معرفت (realization) کیا ہے۔ معرفت دراصل یہ ہے کہ ایک بندہ، خدا کی نسبت سے اپنے عجز (helplessness)کو دریافت کرلے۔ وہ جان لے کہ خدا قادرِ مطلق ہے اور انسان عاجزِ مطلق۔ یہ دریافت جب دل کی گہرائیوں کے ساتھ انسان کی نفسیات میں شامل ہوجائے تو اِسی کا نام معرفت ہے۔ ایک شخص نے اپنے ایک محبوب بیٹے کے نام اپنے خط میں اس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ — میرے دل کی گہرائیوں کو روشن کرنے والے چاند۔ یہی احساس جب خداوند عالم کی نسبت سے پیدا ہوجائے تو اِسی کا نام معرفت ہے۔
مثلاً آپ قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اِس آیت تک پہنچتے ہیں: وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ (31:27)۔ قرآن کی اس آیت پر غور کرتے ہوئے آپ کے سینے میں جذبات کا ایک طوفان امڈ پڑتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ خدا اگر قدرت کے اعتبار سے ایک انتہا پر ہے، تو انسان عجز کے اعتبار سے دوسری انتہا پر ہے۔ اُس وقت آپ اشک بار آنکھوں کے ساتھ کہہ اٹھتے ہیں کہ — خدایا، جس طرح تیری صفت ما نفدتْ کلمات اللّٰہ ہے، اُسی طرح انسان کی صفت ’ما نفدتْ عجز الانسان‘ ہے۔
یہ گویا کہ دریافت کی آخری حد ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان، قادرِ مطلق کے مقابلے میں عاجز مطلق کی آخری حد (extent) بناتا ہے۔ یہ شعورِ انسانی کا وہ مقام ہے، جس کا تجربہ انسان کے سوا کوئی دوسری مخلوق نہیں کرسکتی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ستارے اور سیارے، پہاڑ اور سمندر انسان پر رشک (envy) کرنے لگیں۔ یہ تجربہ کسی بندے کے لیے اعلیٰ دریافت کی حیثیت رکھتا ہے، اور اعلیٰ دریافت ہی کا دوسرا نام اعلیٰ معرفت ہے۔ یہ اعلیٰ معرفت اِس وسیع کائنات میں انسان کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔