معرفت کا آغاز
ایک عربی مثل ہے: لا أدری، نصف العلم (میں نہیں جانتا، آدھا علم ہے) یعنی اپنی بے خبری کو جان لینا، علم کا نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔ آدمی جب یہ جان لے کہ میں نہیں جانتا تو اس کے بعد اس کے اندر جاننے کی اسپرٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ اسپرٹ آخر کار اس کو علم تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہے، وہ اس کے نہ جاننے کو جاننا بنا دیتی ہے۔ یہی معاملہ معرفت کا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے یہ دریافت کرے کہ وہ معرفت سے خالی ہے۔ اِس کے بعد اس کے اندر تلاشِ معرفت کا جذبہ پیدا ہوگا، جو آخر کار اس کو معرفت تک پہنچا دے گا۔
علم کا آغاز روحِ تجسس (spirit of enquiry) ہے۔ یہی اسپرٹ معرفت کے لیے بھی ضروری ہے۔ آدمی کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ معرفت کے بغیر وہ اندھیرے میں ہے۔ معرفت کے ساتھ جینا روشنی میں جینا ہے، اور معرفت کے بغیر جینا اندھیرے میں جینا۔ معرفت کے بغیر انسان کے لیے صرف ناکامی ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ معرفت آدمی کو برتر سطح پر جینے والا بناتی ہے۔ معرفت والا آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ حقیقتوں کو بے آمیز (as it is) انداز میں سمجھ سکے۔ معرفت آدمی کو فرشتوں کا ہم نشیں بناتی ہے۔ معرفت آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ اُس کو خدا کا فیضان (inspiration)ملنے لگتا ہے۔ معرفت کسی انسان کو انسانِ کامل بناتی ہے۔ معرفت دنیا میں ہدایت کا ذریعہ ہے اور آخرت میں جنت کا ذریعہ۔
معرفت کسی انسان کے لیے اس کے سفرِ حیات کا صحیح آغاز ہے۔ معرفت کسی انسان کو بے شعور زندگی سے نکال کر باشعور زندگی کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہے۔ معرفت کسی آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ بے خدا طرزِ زندگی سے نکل کر با خدا طرزِ زندگی کو اختیار کرسکے۔ معرفت کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنے اعلی امکانات (potentials) کو دریافت کرے اور خدا کی مددسے اس کو واقعہ (actual) بنائے— معرفت تکمیلِ علم کا ذریعہ ہے، اور تکمیلِ حیات کا ذریعہ بھی۔