اعلیٰ معرفت
اگر تمام انسانوں میں کوئی ایک شخص ہے جو اعلیٰ معرفت تک پہنچا ہے تو وہ میں ہوں۔ اور اگر تمام انسانوں میں کوئی ایک شخص ہے جو اعلیٰ معرفت سے محروم رہا تو وہ میں ہوں — یہ احساس اس انسان کاہوتا ہے جو اعلیٰ معرفت کے درجہ تک پہنچے۔ اعلیٰ معرفت تک پہنچنا ممکن ہے مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اعلیٰ معرفت کا درجہ حاصل ہوا ہے۔
اس بے یقینی کا سبب یہ ہے کہ معرفت کسی خارجی کورس کا نام نہیں ہے کہ اس کو پورا کرکے آدمی سمجھ لے کہ میں نے معرفت کاکورس کرلیا اس لیے اب میں معرفت تک پہنچ گیا۔ معرفت تمام تر ایک داخلی حالت کا نام ہے۔ اور داخلی حالت کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا صرف خداوند عالم الغیب کے لیے ممکن ہے۔ کوئی انسان حتی کہ خود طالبِ معرفت بھی اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
خدا کی اعلیٰ معرفت دراصل خدا کی اعلیٰ دریافت کا نام ہے۔ جب کوئی بندہ اس اعلیٰ دریافت تک پہنچتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کے مقابلہ میں اس کی حیثیت تمام تر صفر (zero) کی ہوگئی ہے۔ خدا سب کچھ ہے اور وہ خود کچھ بھی نہیں۔ یہ دریافت اس کو بتاتی ہے کہ اس معاملہ میں فیصلہ کا سارا اختیار صرف خدا کو ہے، فیصلہ میں اس کا اپنا دخل کچھ بھی نہیں۔ یہ دریافت اس کو بتاتی ہے کہ سارا معاملہ تمام تر یک طرفہ (unilateral) ہے۔
صاحب معرفت کون ہے۔ صاحب معرفت صرف وہ ہے جس کو خدا صاحب معرفت قرار دے۔ اور خدا فیصلہ کے دن (Day of Judgement) سے ایک سکنڈ پہلے بھی کسی کو کچھ نہیں بتاتا۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب معرفت اپنی طرف سے سب کچھ کرنے کے باوجود اِس معاملے میں آخر وقت تک مکمل طورپر ایک قسم کی بے یقینی (uncertainty) کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔