معرفت ایک تخلیقی موضوع
معرفت کا کوئی سٹ کورس (set course) نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اوراد ووظائف یا ذکر واشغال کاکوئی بنا بنایا طریقہ ہے، جو شخص بھی اس کو دہرائے ، اُس کو اپنے آپ معرفت حاصل ہو جائے گی۔ اِس قسم کا کوئی نظریہ معرفتِ خداوندی کی تصغیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت ایک تخلیقی موضوع (creative subject) ہے۔ معرفت کے لیے اجتہادی ذہن درکار ہے۔ معرفت ایک طوفانی تجربہ ہے۔ معرفت کسی شخص کو ذاتی دریافت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ جو معرفت کسی تقلیدی فارم کے دہرانے سے حاصل ہو، وہ کچھ اور چیز ہوسکتی ہے، وہ معرفت نہیں ہوسکتی۔ جس خدا کی صفت ہو: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (55:29)۔ یعنی وہ ہر دن نئی شان میں ہے۔ اس کی معرفت کسی جامد یا تقلیدی کورس کے ذریعے حاصل نہیں کی جاسکتی۔
جس چیز کو سیکولر اصطلاح میں تخلیقی فکر (creative thinking) کہاجاتاہے، مذہب کی زبان میں اُسی کا نام اجتہادی فکر ہے۔ اجتہادی فکر کا مطلب آزادانہ سوچ نہیں ہے، اجتہادی فکر کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے بیانات میں چھپے ہوئے معانی کو د ریافت کیاجائے۔ معانی کی یہ دریافت اجتہادی فکر کے ذریعے ہوتی ہے۔ اِسی اجتہادی فکر سے اعلیٰ معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہ خدائی کتاب (قرآن) اِس لیے اتاری گئی ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر تدبر کریں، وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے اُس سے نصیحت حاصل کریں (ص،38:29) ۔ اِسی غور وفکر پر مبنی نصیحت کا دوسرا نام معرفت ہے۔ اجتہادی معرفت کے حصول میں قرآن کی حیثیت ایک رہنما کتاب کی ہے۔ معرفت کے بنیادی اصول قرآن میں بتا دئے گئے ہیں۔ اِن بنیادی اصولوں کی رہنمائی میں غور کرکے اُن کے اندر چھپے ہوئے معانی کو دریافت کرنا یہی اجتہاد ہے۔ اور اِسی اجتہادی عمل کے ذریعے اعلیٰ معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔