ارتقا پذیر معرفت
ایک مغربی مبصر نے لکھا ہے کہ — ہر دن صبح کو جب سورج کی پہلی کرن تمھارے کمرے میں داخل ہو تو تم اچھل کر بستر سے اٹھو اور کہو کہ ایک اور نئی شان دار صبح:
Wonderful, what a new bright sun!
خدا جو سورج کا خالق ہے، اس کی معرفت بلا شبہ سورج سے بے شمار گنا زیادہ ہے۔ جس انسان کو خدا کی دریافت ہوجائے، وہ ہر صبح وشام خدا کی نئی تجلی کو دریافت کرے گا، اس کی معرفتِ خدا ربانی تجلیات کا ایک لامتناہی سفر بن جائے گی۔
معرفت پتھر کی طرح کوئی جامد چیز نہیں ہے، معرفت درخت کی مانند ایک نموپذیر چیز ہے۔ ایک چھوٹا سا بیج بڑھتے بڑھتے ایک سر سبز درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ معرفت کا بھی ہے۔ معرفت کا آغاز اقرارِ ایمان سے ہوتا ہے۔ اِس کے بعد مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعہ یہ اقرارِ ایمان ترقی کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ معرفت کا ایک ہرا بھرا درخت، بلکہ معرفت کا ایک پورا باغ بن جاتا ہے۔ معرفت کے ارتقا کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے، آدمی کی موت سے پہلے وہ ختم نہیں ہوتا۔
معرفت، خدا کے آلاء (wonders of God) کی دریافت کا نام ہے۔ خدا کے آلاء بے شمار ہیں، اِس لیے خدا کی معرفت بھی ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔ ہمیشہ نئی نئی دریافتوں کے ذریعہ یہ سفر مسلسل طورپر جاری رہتا ہے۔ موت اِس سفر کا خاتمہ نہیں۔ موت کے بعد اہل ایمان کے لیے معرفت کا سفر مزید اضافے کے ساتھ جاری رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ جنت کے لیے سب سے زیادہ لذیذ تجربہ یہی ہوگا کہ وہ معرفت کے باغوں میں جئیں، وہ معرفت کی ہواؤں میں سانس لیتے رہیں۔ یہی بلاشبہ جنت کا سب سے زیادہ لذیذ عطیہ ہوگا۔