توسم ذریعۂ معرفت

قرآن میں ربانی انسان کی ایک صفت توسم (الحجر، 15:75) بتائی گئی ہے۔ توسُّم کا مطلب تفرُّس ہے، یعنی ظاہری علامت کے ذریعے کسی داخلی صفت کو پہچاننا۔ صاحب توسم آدمی اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ چیزوں سے سبق لے سکے، وہ مادی تجربات کے دوران روحانی غذا حاصل کرسکے۔ توسم کی یہ صلاحیت معرفت کے حصول کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جس آدمی کے اندر توسم کی صلاحیت نہ ہو، وہ یقینا معرفت سے بھی محروم رہے گا۔

آسٹریلیا کے عالمی تعلیمی ادارہ (Australian Education International) کی طرف سے 2010 میں 60 صفحے کا ایک میگزین شائع ہوا۔اس کے ایک صفحے پر پوری دنیا کا نقشہ (world map) بڑے سائز میں چھپا ہوا ہے۔ اِس نقشے میں ایک طرف سفید رنگ میں انڈیا ہے، اور دوسری طرف دس ہزار میل کے فاصلے پر ہرے رنگ میں آسٹریلیا۔ ہندستانی نقشے کے اوپر ہندستانی نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں— تم یہاں ہو (You are here)۔ اس کے بعد آسٹریلیا کے نقشے پر لکھا ہوا ہے کہ — تمھارا مستقبل یہاں ہے (Your future is here) ۔

آپ نے اس نقشے کو دیکھا۔ اس کے بعد اچانک آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ انسان آج موت سے پہلے کی دنیا میں ہے، لیکن اس کا ابدی مستقبل موت کے بعد کی دنیا میں ہے۔ اپنا مستقبل تلاش کرنے کی جگہ موجودہ دنیا نہیں ہے، بلکہ وہ بعد کو آنے والی آخرت کی ابدی دنیا ہے۔

اِسی انتقالِ فکر (intellectual shift) کا نام توسم ہے، یعنی مادی واقعات سے روحانی سبق لینا، مادی واقعات کو عارفانہ تجربے میں تبدیل کرنا:

To convert material events into spiritual experience.

 اِس توسم کا سامان ہر چیز میں موجود ہوتا ہے، کوئی بھی چیز اس سے خالی نہیں۔ اگر آدمی کا ذہن بیدار ہو تو وہ ہر چیز میں توسم کے ذریعے معرفت کی غذا حاصل کرتا رہے گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom