معرفت کی تمثیلات
کائنات معرفت کا ایک عظیم دفتر ہے۔ کائنات کی ہر چیز معرفت کی ایک داستان ہے۔ کائنات کی ہر چیز معرفت کو مجسم کئے ہوئے ہے۔ بقیہ کائنات میں جو چیز فطرت کے قانون کے تحت ظاہر ہوئی ہے، وہی انسان کی سطح پر شعوری معرفت کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ انسان اگر غور کرے تو کائنات کی ہر چیز اس کو معرفت کا سبق دیتی ہوئی نظر آئے گی۔
سورج تمثیل کی زبان میں بتارہا ہے کہ معرفت وہی معرفت ہے جو انسان کے وجود کو اندر سے باہر تک روشن کردے۔ بہتا ہوا دریا انسان کو بتا رہا ہے کہ معرفت کو اس طرح حاصل کرو کہ وہ تمھاری روح میں چشمہ بن کر جاری ہو جائے۔ درخت کی ہری بھری شاخیں جب ہوا سے ہلتی ہیں تو وہ انسان کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ معرفت کو اِس طرح حاصل کرو کہ وہ تمھارے لیے ایک پُراہتزاز تجربہ (thrilling experience) بن جائے۔ چڑیاں جب چہچہاتی ہیں تو وہ انسان سے کہتی ہیں کہ خدا کے کمالات اِس طرح دریافت کرو کہ تمھاری زبان پر حمد خداوندی کا نغمہ جاری ہو جائے۔ پہاڑ کی بلندی خاموش زبان میں یہ پیغام دے رہی ہے کہ خدا کو اس کی اعلیٰ عظمتوں کے ساتھ دریافت کرو، وغیرہ۔
یہی حال پوری کائنات کا ہے۔ کائنات کی ہر چیز فطرت کی زبان میں معرفت کا پیغام دے رہی ہے۔ گویا کہ کائنات معرفت کی ایک عظیم لائبریری ہے۔ جس طرح ایک اسکالر لائبریری میں داخل ہوکر کتابوں کے ذریعے معلومات اخذ کرتاہے، اِسی طرح ایک سچا انسان کائنات کی خدائی لائبریری سے معرفت کی فکری غذا (intellectual food) حاصل کرتا ہے۔
کائنات کی لائبریری انسان کے لیے معرفت کا ایک لامحدود خزانہ ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ معرفت کے انسائکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں درخت کا ہر پتہ اپنے اندر معرفت کا دفتر سموئے ہوئے ہے۔ اِسی بات کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— دانش مند انسان کی نظر میں سرسبز درختوں کا ہر پتہ معرفتِ خداوندی کا ایک دفتر لئے ہوئے ہے:
برگِ درختانِ سبز، در نظرِ ہوشیار ہر ورقے دفترے است، معرفتِ کردگار