خالق کی بے پناہ عظمت
قرآن کی سورہ الرعد میں یہ آیت آئی ہے:اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا (13:2)۔یعنی اللہ ہے جس نے آسمان کو بلند کیا بغیر ایسے ستون کے جو تمھیں نظر آئیں۔
اِس آیت میں ایک عظیم کائناتی حقیقت کو بیان کیاگیا ہے۔ یہ حقیقت اتنی زیادہ عظیم ہے کہ اس کو سوچ کر آدمی کا دل دہل اٹھے اور اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔
قدیم روایتی زمانے میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ چیزیں کسی مادّی سہارے پرقائم ہیں۔ مثلاً ستارے کسی آسمانی چھت سے لٹکائے گئے ہیں، ا ور زمین کسی مادی سہارے پر قائم ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں جب دو ر بین ایجاد ہوئی اور خلا (space) کا دور بینی مشاہدہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ ساری کائنات ایک خلا میں ہے۔ کہکشائیں، شمسی نظام، ستارے اور سیارے، سب ایک اتھاہ خلا میں کسی سہارے کے بغیر گھوم رہے ہیں۔ یہ سارا معاملہ اتنے وسیع خلامیں ہورہا ہے کہ انتہائی طاقت ور دوربینوں کے ذریعے بھی اُن کی حدوں کو دیکھا نہیں جاسکتا۔
کسی سہارے کے بغیر قائم یہ کائناتی نظام اتنا زیادہ بڑا ہے کہ اس کا صرف قیاس کیاجاسکتا ہے۔ وسیع کائنات کے بارے میں جو اندازے کئے گئے ہیں اور اس کے جو فوٹو حاصل کئے گئے ہیں، وہ اتنے زیادہ بڑے ہیں کہ اُن کے فاصلوں کو عام اَعداد کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا، چناں چہ اُن کو صرف سالِ نور (light years) کی اصطلاح میں بیان کیا جاتاہے:
Light year: A unit of astronomical distance, equal to the distance that light travels in one year, approximately 6,000,000,000,000 miles.
لامحدود خلا میں انتہائی وسیع کائنات کا معلق ہونا، خالق کی عظمت کا ناقابلِ بیان ثبوت ہے۔