مبنی برعقل معرفت
معرفت کا ذریعہ، قرآن کے الفاظ میں، تفکر اور تدبر (آل عمران، 3:191) ہے۔ معرفت کا حصول غوروفکر (contemplation) کے ذریعے ہوتا ہے، اور غور وفکر کا تعلق تمام تر عقل یا دماغ (mind) سے ہے۔ انسان کے جسم میں صرف دماغ یا برین (brain) وہ حصہ ہے جس کے اندر سوچنے کا عمل جاری ہوتا ہے۔ اِسی سوچنے کے عمل کے ذریعے وہ چیز حاصل ہوتی ہے جس کو معرفت (realization) کہاجاتا ہے۔
قدیم زمانے سے ایک روحانیت پسند طبقہ رہا ہے جو معرفت کا ذریعہ قلب کو بتاتا ہے۔ اِسی نظریے کے تحت، قلبی مراقبہ (meditation) کا طریقہ رائج ہوا۔ مگر یہ نظریہ دینِ خداوندی کی پیداوار نہیں، یہ نظریہ تمام تر وحدتِ وجود (monism) کے تصور کے تحت پیدا ہوا ہے۔ وحدتِ وجود یا ادوئت واد کا عقیدہ رکھنے والوں نے اپنے اِس عقیدے کے تحت ایک نظریہ وضع کیا ہے۔ اِس نظریے کو وہ اِن ڈویلنگ گاڈ (in-dwelling god) کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، یعنی دل کے اندر بسنے والا خدا۔ مگر یہ نظریہ تمام تر صرف قیاس (supposition) پر مبنی ہے، اُس کے حق میں کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔
قرآن میں قلب (heart) کے حوالے سے فقہ (فہم) کا حوالہ آیاہے (الاعراف، 7:179) ، مگر یہ صرف ادبی استعمال (literary usage) کے طور پر ہے، وہ حقیقی معنی کے اعتبار سے نہیں۔ موجودہ زمانے میں قلب کی تحقیق کرنے والوں نے بتایا ہے کہ قلب گردشِ خون (blood circulation)کا جو عمل کرتا ہے، اس کے دوران قلب اور دماغ کے مابین کمیونی کیشن (communication) ہوتا ہے۔ مگر اِس سے سوچنے والے دل (thinking heart) کا نظریہ ثابت نہیں ہوتا، کیوں کہ دماغ کے ساتھ اِس قسم کا کمیونی کیشن جسم کے ہر عضو (organ) کے ساتھ ہوتا ہے۔ جدید علم ِ تشریح الاعضا (anatomy) کے ذریعے جو چیز ثابت ہوئی ہے، وہ اعضا (organs) کے درمیان صرف کمیونکیشن ہے، نہ یہ کہ قلب یا کوئی اور عضو سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جسم کے تمام اعضا(organs)اس اعتبار سے، دماغ کے ماتحت (subservient to the brain) ہیں، اس میں قلب کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔