بے یقینی نہیں

ہدایت کے معاملے میں خدا کا ایک قانون وہ ہے، جس کو قرآن میں قانونِ التباس کہاگیا ہے (الانعام، 6:9) ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز میں شبہ کا ایک عنصر (element of doubt) موجود ہوتا ہے۔ یہ قانون مصلحتِ امتحان کی بنا پر ہے۔ جو شخص شبہ کے اِس پردے کو پھاڑ سکے، وہ سچائی کو پائے گا۔ اور جو شخص شبہ کے اِس پردے کو پھاڑنے میں ناکام رہے، وہ سچائی کو پانے میں بھی ناکام رہے گا۔ کوئی بھی دوسری چیز اس معاملے میں آدمی کو بچانے والی نہیں۔

معرفت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ جو آدمی معرفت کے سفر کا مسافر بنے، اس کو بار بار ایسی صورتِ حال کا سامنا پیش آئے گا، جب کہ وہ محسوس کرے گا کہ وہ شبہ اور یقین (doubt and conviction)  کے درمیان ہے۔ وہ ایک چیز پر یقین کرنا چاہتا ہے، لیکن اِسی کے ساتھ کچھ ایسے اسباب بھی ہیں جو اُس کو شبہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ ایک چیز کو ماننا چاہتا ہے، لیکن وہ اس کو مان نہیں پاتا۔ تذبذب (hesitation) کی یہ حالت اکثر لوگوں پر گزرتی ہے۔ یہ تذبذب معرفت کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

جب بھی کوئی شخص تذبذب کی کیفیت کا شکار ہوتا ہے تو ہمیشہ اس کے سامنے د وحالتیں ہوتی ہیں— ایک طرف، عقل (reason) کی سطح پر وہ محسوس کرتا ہے کہ فلاں چیز علمی معیار پر بالکل درست ہے، لیکن اِسی کے ساتھ اپنے روایتی خیالات کی بنا پر وہ اِس شک میں رہتا ہے کہ کہیں اس کے اندر کوئی غلطی نہ ہو۔ علمی طورپر مدلل ہونے کے باوجود وہ موہوم شبہ کی بنا پر بے یقینی کی حالت میں پڑا رہتا ہے۔

بے یقینی کی یہ حالت کسی کے لیے عذر نہیں بن سکتی۔ معرفت کے طالب کے لیے ضروری ہے کہ وہ تذبذب کی اِس حالت سے نکلے۔ وہ شبہ کے مقابلے میں علم کو ترجیح (priority)  دے۔ وہ بے ثبوت شک کی فضا سے باہر آئے۔ وہ ثابت شدہ چیز پر یقین کرتے ہوئے اس کو اختیار کرلے۔ یہ معرفت کے حصول کی لازمی شرط ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom