معرفت کی قیمت
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ قیمت کی ادائیگی کے بغیر کسی کو اس کی مطلوب چیز نہیں ملتی۔ اِسی طرح معرفتِ الٰہی کی بھی ایک قیمت ہے، اور وہ قیمت طالبِ معرفت کی خود اپنی ذات ہے۔ اِس سے کم کوئی چیز معرفت کی قیمت نہیں بن سکتی— خدا کی معرفت کسی آدمی کو ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ملتی ہے۔ اپنی نفی نہیں تو خدا کی معرفت بھی نہیں۔
اپنی نفی کا مطلب نام نہاد قسم کی پراسرار ورزشیں نہیں۔ یہ معاملہ تمام تر غور وفکر کے ذریعہ انجام پاتا ہے، نہ کہ روحانیت کے نام پر کچھ جسمانی ورزشوں کے ذریعے۔ نفیِ خویش (self-negation) کیا ہے۔ نفی خویش یہ ہے کہ آدمی رب العالمین کو اِس طرح دریافت کرے کہ اس کے مقابلے میں اُس کو خود اپنا وجود سر تا سر بے حقیقت نظر آنے لگے۔
نفی خویش کا مزاج دراصل عجز، تواضع، اعتراف، محاسبہ، بے نفسی، سادگی، خدا ترسی، جہنم کا خوف اور جنت کا اشتیاق، جیسی صفات کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ صفات متصوفانہ ریاضت کے ذریعے بیدار نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ہمیشہ فکری عمل (thinking process) کے ذریعے کسی شخص کو حاصل ہوتی ہیں۔
نفی خویش کا عمل حقائقِ ربانی کی گہری دریافت کے بعد شروع ہوتا ہے، اور وہ زندگی کے آخری لمحے تک برابر جاری رہتاہے۔ نفی خویش دراصل اپنی حقیقتِ واقعی کی دریافت کا دوسرا نام ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انسان کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک معمولی حادثہ اُس کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کا علم اس کو یقین کے درجے میں حاصل نہیں۔
انسان ہر لمحہ خارجی اسباب کا محتاج ہے۔ انسان کے وجود کا کوئی بھی حصہ کسی بھی وقت اپنا فطری کام کرنا بند کرسکتا ہے۔ انسان نہ اپنی زندگی کی حقیقت کو جانتا اور نہ اپنی موت کی حقیقت کوجانتا۔ انسان بہت سی چیزیں چاہتا ہے، لیکن کسی بھی چیز پر اُسے کوئی قد رت حاصل نہیں۔ انسان بظاہر آزاد ہے، لیکن ارادہ (will) کے سوا ہر اعتبار سے، وہ مجبور ہے۔
انسانی وجود کے اِن تمام پہلوؤں کے شعور ہی کا دوسرا نام نفیِ خویش ہے، اور یہی نفی خویش معرفت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نفی خویش ایک اعتبار سے، خدا کو قادرِ مطلق کی حیثیت سے دریافت کرنے کا نام ہے، اور دوسرے اعتبار سے، اپنے آپ کو عاجزِ مطلق کی حیثیت سے دریافت کرنے کا نام۔