خالق کے وجود کی دریافت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227) یعنی اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اِس وسیع کائنات میں ایک فطری استثنا (natural exception) کے طورپر بنایاگیا ہے۔ اپنے اِس ذاتی تجربے سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جب یہاں ایک فطری استثنا ممکن ہے تو فوق الفطری استثنا (supernatural exception) بھی یقینی طور پر ممکن ہے۔ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابلِ فہم (understandable) بناتا ہے۔

وسیع خلا میں بے شمار ستارے اور سیارے (stars and planets) ہیں۔ ہماری زمین میں بے شمار حیوانات ہیں۔ مگر انسان جیسی حیوانی مخلوق ساری کائنات میں کہیں موجود نہیں۔ انسان ساری کائنات میں ایک نادر استثنا (rare exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس نادر استثنا پر غور کیاجائے تو یہ یقین کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ اِس قسم کا ایک اور برتر استثنا یہاں موجود ہے۔ یہ معلوم واقعہ کے ذریعے نامعلوم واقعہ کو دریافت کرنا ہے۔ یہ استدلال پورے معنوں میں ایک علمی اور منطقی استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔

رینے ڈیکارٹ (René Descartes)   فرانس کا مشہور فلسفی ہے۔ وہ 1596  میں پیدا ہوا، اور 1650 ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے کہا تھا کہ — میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں:

I think, therefore, I am.

مذکورہ فرانسیسی فلسفی صرف نصف صداقت (half truth) تک پہنچا۔ اس نے اپنے آپ کو دریافت کیا، لیکن وہ اپنے خالق کو دریافت نہ کرسکا۔ اگر وہ مزید غور وفکر کرتا تو اپنے وجود (existence) کی صورت میں، وہ خدا کے وجود کو دریافت کرلیتا۔ اس کا اپنا وجود اُس کے لیے خدا کے وجود کا ثبوت بن جاتا۔ وہ مخلوق کے ذریعے خالق کو دریافت کرلیتا۔ وہ پکار اٹھتا کہ — میں ہوں، اِس لیے خدا ہے:

I am, therefore, God is.

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom