معرفت کا سفر

قرآن میں خدا کی قدرت کو بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں: إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ  (36:82)  یعنی خدا جب کسی چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ہو جا اور پھر وہ چیز ہوجاتی ہے۔

قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت اتنی زیادہ ہے کہ وہ چیزوں کو ایک لمحے کے اندر وجود میں لا سکتا ہے، مگر تخلیق کی تاریخ بتاتی ہے کہ خدا نے ایسا نہیں کیا۔ جدید سائنس کی دریافت کے مطابق، موجودہ کائنات کی عمر تقریباً 15  بلین سال ہے۔ خدا نے سب سے پہلے تمام کائناتی ذرات کا مجموعہ بنایا۔ اِس مجموعے کو سپر ایٹم (super atom) کہاجاتا ہے۔ پھر اِس سپر ایٹم میں دھماکہ (explosion) ہوا۔ اور جمے ہوئے ذرات منتشر ہو کر وسیع خلا میں پھیل گئے۔ پھر اِن ذرات نے ستاروں اور سیاروں کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد نظامِ شمسی (solar system)  بنا۔ پھر اِسی نظامِ شمسی کے اندر موجودہ زمین کی تشکیل ہوئی۔ پھر دو گیسوں کے ملنے سے سیال (liquid water) وجود میں آیا۔ اِس کے بعد نباتات اور حیوانات کا ظہور ہوا۔ آخر میں انسان کو پیدا کرکے اُس کو زمین پر بسایا گیا۔

یہ پورا واقعہ اگر ایک تخلیقی کرشمہ کے طورپر اچانک ایک لمحے کے اندر ظہور میں آتاتو وہ انسان کے لیے صرف تحیّر (bewilderment)  کا سبب ہوتا، وہ انسان کے لیے غور وفکر کا ذریعہ نہ بنتا۔ خالق نے ایسا کیا کہ کائنات کو ایک لمحے میں پیدا کرنے کے بجائے، ایک لمبے عمل (process) کے ذریعے پیدا کیا۔ کائنات کی تخلیق میں بے شمار عوامل (factors) شامل ہوگئے۔ اِس طرح یہ ممکن ہوا کہ انسان کائنات پر غور کرے اور لامتناہی طورپر وہ اس کے قوانین کو دریافت کرتا رہے۔ اِس طرح کائنات، انسان کے لیے ابدی معرفت کا ذریعہ بن گئی۔ انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ہر صبح وشام کائنات میں چھپے ہوئے تخلیقی عمل پر غور کرے۔ اِسی طرح وہ مسلسل طور پر خدا کے تخلیقی کرشموں کو دریافت کرتا رہے، اس کا سفرِ معرفت کبھی ختم نہ ہو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom