اعلیٰ معرفت سے محرومی کیوں

قرآن کے مطابق، خدا کی اعلیٰ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جس کو اللہ سے اعلیٰ تعلق قائم ہوجائے۔ اللہ سے اعلیٰ تعلق کی پہچان یہ ہے کہ انسان کو اللہ سے حبّ شدید (البقرۃ،2:165) اور اللہ سے خوفِ شدید (التوبۃ، 9:18) پیدا ہوجائے۔ جب کسی انسان کو اللہ کے ساتھ اِس قسم کا گہرا تعلق حاصل ہوجائے تو اس کے اندر ذکرِ کثیر (الاحزاب، 33:41)کی صفت پیدا ہوجاتی ہے، یعنی اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا، اللہ کے لیے بہت زیادہ سوچنا۔ اللہ کے ساتھ تعلق میں اگر ایک فی صد بھی کمی آجائے تو ایسے انسان کو اللہ کی اعلیٰ معرفت حاصل نہیں ہوگی۔

یہود کا حال بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ ان کا گہرا تعلق اللہ سے نہ رہا، بلکہ اپنے اَحبار اور رُہبان سے ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں وہ اللہ کی اعلیٰ معرفت سے محروم ہوگئے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال ہے۔ مسلمانوں کے ہر گروہ کے کچھ بڑے (bigs)  ہیں اور ان کا گہرا تعلق اپنے اِنھیں بڑوں سے ہے، نہ کہ خداوند ذوالجلال سے۔ اپنے اِن بڑوں کو انھوں نے مقدس نام دے رکھے ہیں۔ مثلاً اکابر، اسلاف، مشائخ، بزرگانِ دین، وغیرہ۔مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اِنھیں مفروضہ بڑوں سے گہرا قلبی تعلق رکھتے ہیں۔ اِس گہرے قلبی تعلق کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے اِن بڑوں کے خلاف تنقید کو بالکل پسند نہیں کرتے۔

یہ غیر خدا کے ساتھ حب شدید کا تعلق قائم کرنا ہے او ر جو لوگ کسی غیر خدا کے ساتھ حب شدید کی نفسیات میں مبتلا ہوں، وہ کبھی اللہ کی اعلیٰ معرفت کی توفیق نہیں پاتے۔ ایسے لوگوں کے حصے میں صرف رسمی عقیدہ آتاہے، نہ کہ اعلیٰ ایمان باللہ جو آدمی کو اعلیٰ معرفت تک پہنچانے والا ہو۔ اعلیٰ معرفت کی ایک قیمت ہے، اور یہ قیمت ادا کئے بغیر کسی کو اعلیٰ معرفت حاصل نہیں ہوسکتی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom