معرفت کا خزانہ
قرآن میں کلمات اللہ (31:27) کا ذکر ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے اِن کلمات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کی گنتی کی جائے تو اُن کی گنتی کبھی ختم نہ ہو۔ یہ کلمات اللہ کیا ہیں، یہ کوئی مبہم چیز نہیں۔ اِس سے مراد وہی چیز ہے جس کو اسرارِ کائنات (mysteries of the universe) کہاجاتا ہے۔ جدید سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انھیں کلماتِ الہی کو دریافت کرنے کا نام ہے۔
جدید سائنس کی تاریخ تقریباً پانچ سوسال تک پھیلی ہوئی ہے۔ اِس دوران سائنس دانوں نے قوانین فطرت کے اعتبار سے بے شمار چیزیں دریافت کی ہیں۔ دور بین (telescope) اور خورد بین (microscope) کی ایجاد نے اِن دریافتوں کا دائرہ بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس اپنی نوعیت کے اعتبار سے، معرفت کا علم ہے۔ اُس نے اہلِ ایمان کے لیے معرفت کا ایک عظیم خزانہ کھول دیا ہے۔
یہاں سائنس سے مراد ٹکنکل سائنس (technical science)نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد پاپلر سائنس (popular science) ہے۔ پاپلر سائنس کے موضوع پر ہر زبان میں کتابیں موجود ہیں۔ یہ کتابیں آسان زبان میں ہوتی ہیں اور ہر آدمی اُن کو پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ معرفت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ تخلیقِ خداوندی میں غوروفکر کرنا ہے۔ غوروفکر کے لیے ہمیشہ معاون ڈاٹا (supporting data) درکار ہوتا ہے۔ سائنس کے ظہور سے پہلے اِس معاملے میں صرف محدود ڈاٹا دستیاب تھا۔ اب سائنس نے طالبِ معرفت کے لیے لامحدود ڈاٹا کی عظیم لائبریری فراہم کردی ہے۔ اب طالب معرفت کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ اپنے سفرِ معرفت کو لامتناہی طورپر (endlessly) جاری رکھے۔ وہ ہر لمحہ معرفتِ رب کی غذا حاصل کرتا رہے۔ اس کے اندر روحانی ارتقا کا عمل (process) مسلسل طورپر جاری رہے۔ روحانی ارتقا کا یہ عمل موت سے پہلے ایک لمحے کے لیے بھی ختم نہ ہو۔